دادو (نمائندہ جسارت) دادو کے نواحی علاقے گاؤں فضل کنڈی پنہور کی ڈسپنسری گزشتہ تین سال سے بند، اسٹاف گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے لگا، ڈسپنسری میں موجود لاکھوں روپے مالیت کی سندھ حکومت کی مہر لگی ادویات خراب ہوگئیں جو کچرہ کنڈی میں پھینک دی گئیں، ڈسپنسری بند ہونے اور ادویات کے خراب ہونے پر علاقے مکینوں کا احتجاج۔ مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ 2012ء میں ڈسپنسری بحال ہوئی، جو 2017ء تک چلتی رہی اور اسٹاف بھی معمول کے مطابق ڈیوٹی کرتا رہا۔ 2016ء میں اس وقت کے ایم پی اے مرحوم غلام شاہ جیلانی نے ڈسپنسری کو عمارت بنوا کر دی، نئی عمارت بننے بعد اسٹاف غائب ہوگیا، جو تین سال گزرنے کے بعد بھی ڈسپنسری فعال نہیں ہوسکی ہے۔ ڈسپنسری میں پڑی لاکھوں روپے مالیت کی ادویات زائد المیعاد ہوگئیں مگر کسی غریب کو نہ مل سکیں۔ ڈی ایچ او دادو کو کئی مرتبہ درخواستیں دی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، جس کے باعث ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر کسی بندے کو بخار بھی ہوجائے تو اسے 30 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دادو اسپتال جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈسپنسری بحال کرکے مزید مشکلات سے بچایا جائے۔ جب اس معاملے کے متعلق جسارت نے ڈی ایچ او دادو ڈاکٹر زاہد ڈاوچ سے تفصیلات معلوم کیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ ڈسپنسری محکمہ صحت دادو کے ماتحت نہیں ہے، جبکہ ادویات کہاں سے آئی ہیں اور کب خراب ہوئی ان کا ہمیں علم نہیں ہے۔