نسیم حجازی مورخ نہیں ناول نگار تھے

1890

سینئر صحافی محترم حامد میر صاحب نے نسیم حجازی سے معذرت کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا۔ جس میں بعض اعتراضات کیے گئے ہیں۔ ان کا اختلاف کسی درجے میں درست ہے مگر کچھ گزارشات لیے ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نسیم حجازی مورخ نہیں وہ ایک ناول نگار ہیں اور ناول کی کچھ اپنی ضروریات ہوا کرتی ہیں۔ فنی تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ تاریخی ناول نگار احتیاط کا دامن تھامے رہے۔ تاریخی واقعات میں تصرف نہ کرے۔ جہاں تاریخ خاموش ہو وہاں تخیل کا سہارا لے کر کچھ رنگ آمیزی کی جاسکتی ہے اور یقینا نسیم حجازی ایک مشہور ناول نگار تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس اصول کو مقدم رکھا کہ ایک کامیاب ناول نگار معاشرے کے بکھرے ہوئے موضوعات، محسوسات اور مشاہدات میں تخیل اور جذبات کی آمیزش سے ایسی دلچسپی پیدا کرے کہ وہ اپنے عہد کا عکاس بن جائے۔ تاریخی ناول نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ موضوع اور عہد کا انتخاب کرتے وقت خوب سوچ بچار کرے کہ وہ جس دور کے واقعات ضبط تحریر میں لائے ان میں اس قدر دلچسپی اور تخیل آفرینی پیدا کرے کہ قارئین کو ماضی کی چلتی پھرتی زندگی دکھا سکے۔
نسیم حجازی نے اپنے اکثر ناولوں اور بالخصوص محمد بن قاسم میں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جہاں تاریخی واقعات میں خلا موجود ہے وہاں اپنے قلم کی کار فرمائی اس ہوشیاری سے کی ہے کہ تخیل پر بھی حقیقت کا گماں ہونے لگتا ہے اور تاریخی و تخیّلی واقعات اس قدر مربوط ہوجاتے ہیں کہ وہ ایک ہی کہانی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا یہ انداز قاری کے لیے دلچسپ و جاذب نظر بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخی ناول نگار کا امتحان ہوتا ہے مگر ایسے معروف اور پرشکوہ واقعات میں تخیل کی کارفرمائی سے ایک متوازی کہانی یا قصہ پیش کرنا ازحد مشکل کام ہے مگر نسیم حجازی اس حوالے سے کامیاب قلم کار کہے جاسکتے ہیں۔
تاریخی ناول نگار کے لیے ایک اور مشکل اس وقت درپیش ہوتی ہے جب وہ تاریخی کرداروں کو پیش کرتا ہے۔ اگر انہیں ہو بہو پیش کرے تو ناول نگاری کا فن متاثر ہوتا ہے۔ اور اگر تصرف کرے تو قارئین اور ناقدین اس کی گرفت کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ناول نگار مختلف تواریخ کو سامنے رکھ کر اپنے موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔ محترم حامد میر کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسیم حجازی نے محمد بن قاسم کی عمر غلط بیان کی ہے تو اس سلسلے میں وہ جن روایات کو سامنے لائے ان کے مقابل ہماری آرا بھی پیش خدمت ہیں۔ اس لیے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ابن قاسم کی عمر کا تعین کرتے ہوئے مختلف روایات کو مدنظر رکھا ہوگا اور ناول کی ضرورت کے پیش نظر 17 سال یا کم سن سپہ سالار کی اصطلاح ان مورخین کی آرا سے منتخب کی ہوں گی جن کے مطابق، شیخ محمد اکرام رقم طراز ہیں: ’’اور اس کی قیادت کے لیے اپنے (حجاج بن یوسف نے) داماد اور چچا زاد بھائی عماد الدین محمد بن قاسم کو چنا جس کی عمر اس وقت 17 سال کی تھی‘‘۔ (آب کوثر، شیخ محمد اکرام) اسے مزید تقویت اعجاز الحق قدوسی کی اس رائے سے ملتی ہے۔ ’’حجاج نے محمد بن قاسم کو جو حجاج کا بھتیجا اور اس کا داماد بھی جس کی عمر اس وقت 17 سال تھی۔ سندھ کی مہم کا سپہ سالار بنایا‘‘۔ (سندھ کی تاریخ کہانیاں)
مزید اتفاق شفیق بریلویؒ نے کیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں ’’اسلامی لشکر اپنے نو عمر مگر جری سپہ سالار کی زیر قیادت 712ء بمطابق 93ھ ماہ رمضان المبارک مکران کے راستے سندھ میں داخل ہوا۔ (محمد بن قاسم سے محمد علی جناح تک)
جب کہ شاہ معین الدین احمد ندویؒ نے بھی محمد بن قاسم کو نوجوان لکھا ہے‘‘۔ (تاریخ اسلام، جلد چہارم)
ان آرا کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ابن قاسم کی عمر میں مختلف مورخین کے یہاں اختلاف موجود تھا۔ اور ہمارے ممدوح نے ان کی عمر کا تعین کرنے میں مذکورہ روایات کا سہارا لیا ہوگا۔ اور پھر اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ نسیم حجازی کا ناول محمد بن قاسم اس عہد میں شائع ہوا جب تحریک پاکستان اپنے اختتامی اور منطقی نتیجے کی طرف گامزن تھی۔ قرار داد لاہور کی منظوری نے قوم میں جوش ولولہ اُمنگ و حوصلہ برپا کردیا تھا اور اسے مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایسے تاریخی واقعات اور کرداروں کو پیش کرنا ایک ضرورت بن گیا تھا جو لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہوں اور اسی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے ’’محمد بن قاسم‘‘ تحریر کی۔ اپنے اس ناول کے ذریعے انہوں نے ہمت و شجاعت کی تاریخ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کو کسی تحریک کا بنیادی وصف قرار دیا ہے اور اس کی اشد ضرورت تھی۔
رہا حامد میر صاحب کا یہ اختلاف کہ ہماری درسی کتب میں محمد بن قاسم کی عمر 17 سال بیان ہوئی ہے۔ تو اول تو ہم تاریخی روایات سے یہ ثابت کرچکے کہ ان کی عمر کے معاملے میں اختلاف تھا۔ دوم یہ کہ درسی کتب ترتیب دینے والے اپنی تحقیق کے مطابق مواد شائع کرتے ہیں نہ کہ کسی ناول کا سہارا لے کر اپنی قوم کو غلط معلومات دی جائیں۔ پھر بھی ہم تو یہی کہنے پر اکتفا کریں گے کہ تاریخی ناول ایک کہانی پر مشتمل ہے۔ جہاں حقیقت اور تخیل کا امتزاج اس کی دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ کوئی صحیفہ تو ہے نہیں جو کسی غلطی سے مبرا ہو اس لیے سے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
سندھ میں خصوصاً اور ہندوستان میں عموماً اسلام کی اشاعت و فروغ کا سہرا بلاشرکت غیر محمد بن قاسم کے سر باندھا جانا چاہیے۔ مگر حامد میر صاحب یہاں بھی اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے جس روایت کو پیش کیا ہے کہ 25 صحابہ کرامؓ پہلے آئے تھے۔ ہمیں اس سے ہرگز اختلاف نہیں بلکہ اگر موصوف تاریخ کا مطالعہ کریں تو عربوں کی تجارتی سرگرمیاں ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں اس وقت سے موجود تھیں۔ جب اسلام کا نور نہیں پھیلا تھا۔ اور اگر بغور جائزہ لیں تو محمد بن قاسم کی سندھ آمد کی وجہ موجودہ سری لنکا سے روانہ ہونے والا وہ بحری جہاز بنا تھا جس میں عرب خاندان حجاز کی طرف رواں دواں تھے۔ یعنی سری لنکا میں بھی اسلام کا نور پھیلا۔ مگر اس آفتاب کی طرح نہیں جس طرح ہندوستان میں اس کی ضیا پاشی نظر آئی اس بارے میں بیش تر روایات ملتی ہیں کہ سندھ کے باسیوں کو محمد بن قاسم کا انتظار تھا۔ مثلاً میر شیر علی قانع کی یہ روایت قابل غور ہے کہ ’’ایک برہمن شہرِ پناہ سے نکلا اور اس نے جان کی امان چاہی اور بتایا کہ علم نجوم سے اسے یہ معلوم تھا کہ یہ شہر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگا‘‘۔ (تحفۃ الکرام)
اسی رائے سے مولانا اعجاز الحق قدوسی اور ڈاکٹر حمید الدین اور دیگر مورخین نے بھی اتفاق کیا ہے اور بلاشبہ عوام حکمرانوں کے دین پر ہوا کرتے ہیں جب سندھ فتح ہوا اور حکمرانی مسلمانوں کے حصے میں آئی تو لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ویسے اس بات کو سمجھنے کے لیے سیرتِ محمدیؐ سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے 13 سال مکہ میں رہ کر دین کی تبلیغ کی مگر ایمان لانے والوں کی تعداد ایک ہزار تک نہ پہنچی ہوگی۔ مگر ریاست مدینہ کے قیام کے بعد فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا اور پھر جب مکہ بھی فتح ہوگیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ محض دس سال کے عرصے میں حجتہ الوداع کے موقع پر نبی اکرمؐ کے ہمراہ جو جم غفیر موجود تھا اس کی تعداد سوا لاکھ تک بیان کی جاتی ہے۔ اس لیے میں تو یہی عرض کروں گا کہ وہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت و فروغ کا سہرا محمد بن قاسم کے سر بندھا رہنے دیں اور اگر کچھ مزید معلومات کے خواہاں ہوں تو نا چیز کے مقالہ ’’نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ شائع کردہ انجمن ترقی اردو پاکستان کا مطالعہ فرمائیں۔