دادو(نمائندہ جسارت ) ضلع دادو میں محکمہ جنگلات نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، ضلع دادو میں نایاب درختوں کی کٹائی کا سلسلہ جاری، سندھ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود درختوں کی کٹائی کا سلسلہ تھم نہ سکا ،درختوں کو فروخت کرنے میں محکمہ جنگلات بھی شامل، سیکڑوں درخت کاٹنے اور ضلع بھر کے شہروں میں فروخت کرنے کا سلسلہ ابھی تک بند نہ ہوسکا، علاقے کی پولیس بھی ملوث ، دادو کی چاروں تحصیلوں اور کچے کے علاقوں میں تیزی سے درختوں کی کٹائی کی جا رہی ہے، گاج ڈیم گورکھ ہل اسٹیشن کے پہاڑی علاقوں سمیت کاچھو میں بھی سرکاری زمینوں اور سرکاری عمارتوں سے نایاب درختوں کو کاٹ کر آدھے داموں فروخت کردیے گئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات ضلع دادو کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر بااثر افراد قابض ہوگئے ہیں جس میں تحصیل جوہی، تحصیل میہڑ، تحصیل خیرپورناتھن شاہ اور دادو کی سرکاری اراضی شامل ہے، جبکہ محکمہ جنگلات کی سرکاری اراضی پر قابض افراد نے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل اراضی کے جنگلات کاٹ دیے اور بقیہ سرکاری جنگلات بھی بااثر افراد کے رحم کرم پر ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ جنگلات کے سیکرٹری نے فی ایکڑ دس ہزار رشوت لے کر سرکاری اراضی بااثر افراد کے حوالے کر دی ہے جبکہ ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر ضلع دادو بھی ان جنگلات پر قبضہ اور درختوں کی کٹائی میں ملوث ہیں، محکمہ جنگلات کے جنگلات دشمن عمل پر ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے شہریوں اور علاقہ مکینوں نے کہا کہ درخت ہمارے لیے زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن محکمہ جنگلات کے کرپٹ افسران کی کرپشن کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل جنگلات میں سے باقی کچھ رقبے پر مشتمل درختوں کی کٹائی کا عمل بھی جاری ہے ۔سیاسی سماجی رہنمائوں نے پریس کلب کے صدر صابر علی بھنڈ ،گلن خان بھنڈ، عباس وگیو، ساجد مستوئیاورپروفیسر عرفان کلہوڑوسمیت دیگر نے مزید کہا کہ دادو میں کئی سالوں سے درختوں کی غیرقانونی کٹائی کا عمل جاری ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی آب وہوا موسمیاتی تبدیلی میں واضح فرق پڑا ہے۔ ضلع دادو میں پہلے سال سے اس سال دوگنی مقدار میں درخت کی کٹائی کا عمل شروع ہوگیا ہے کوئی قانونی لائحہ عمل یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کی کٹائی جاری ہے جس سے تحصیل جوہی کے نواحی علاقہ کاچھو ،واہی پاندھی ، قصبو، ڈرگھ بالا، ٹنڈو رحیم، گاج ڈیم، گورکھ ہل اسٹیشن تحصیل خیرپورناتھن شاہ اورتحصیل میہڑ فریدآباد سمیت کچے کے علاقوں سے نایاب نسل کے درخت ٹالی، نیم، بھبھر، سریں یو قلم و دیگر درخت ناپید ہوتے جارہے ہیں، درختوں کی کٹائی کا سب سے بڑا نقصان انسانی صحت پر پڑا ہے جس سے دمہ اور سانس کے بہت سے امراض میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پرندوں کی کافی نسلیں اب ختم ہوچکی ہیں اور گرمی کا پارہ 54 سینٹی گریڈ ریکارڈ پر پہنچ گیا ہے۔ دادو میں پایا جانے والا نایاب نسل کا چھوٹی مکھی کا شہد اب تقریباً ختم ہوچکا ہے درختوں کی کٹائی کا عمل سرکاری اراضی پر ہوتا ہے جبکہ حکومتی سطح پر بہتر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے درخت اس مقدار میں لگائے بھی نہیں جا رہے۔دادو سندھ میں لکڑی کی فروخت کا ایک بہت بڑا مرکز قائم ہے جہاں دادو سے غیرقانونی طور پر کاٹی جانے والی لکڑی پورے پاکستان میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ درختوں کی کٹائی میں علاقے کی پولیس بھی ملوث ہے ایک لکڑی کی ٹرالی سے 500 سے ہزار رپے بھتا لے کر ان کو چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے درختوں کی کٹائی میںتیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے لاک ڈائون کی وجہ سے بند پڑے اسکولوں میں لگے ہوئے درختوں کو بھی کاٹا جا رہا ہے۔ علاقہ مکینوں، سیاسی، سماجی اور شہری تنظیموں کے رہنمائوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری 144 نافذ کرکے درختوں کی کٹائی کو روکا جائے اور غیرقانونی کٹائی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔