کراچی(نمائندہ جسارت)سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن 79برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے ،وہ کئی دنوں سے علیل اور اسپتال میں زیر علاج تھے ،انتقال کی خبر ملتے ہی جماعت اسلامی کے ذمے داران اسپتال پہنچ گئے ۔سید منور حسن چند سال سے پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے ان کی طبیعت میں اتار چڑھاؤ کافی عرصے سے جاری تھا لیکن 3ہفتے قبل ان کو اچانک طبیعت بگڑنے پر مقامی اسپتال میں داخل کیاگیا تھا اور ایک ہفتے سے وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج تھے۔8 دن قبل ڈاکٹروں نے ان کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے ونٹی لیٹر پر بھی منتقل کیا تھا۔جمعے کے روز 12:30بجے وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔سید منورحسن کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہر عید گاہ گراؤنڈ ناظم آباد میں ادا کی جائے گی ۔امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نماز جنازہ کی امامت کریں گے ۔جماعت اسلامی کی جانب
سے نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ کورونا ایس او پیز کا خیال رکھیں اور ماسک لگا کر آئیں ۔ دریں اثنا سید منورحسن کے انتقال پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی،وزیر اعظم پاکستان عمران خان ،سینیٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی ،اپوزیشن لیڈر و مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف،جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ،پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی،وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز،گورنر سندھ عمران اسماعیل،گورنر پنجاب چودھری سرور،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار،مسلم لیگ ق کے چودھری شجاعت،سینیٹر ساجد میر ،علامہ ساجد علی نقوی ، سینیٹر مشاہد اللہ خان ،وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان،وزیر اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ ،پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر ،ایم کیو ایم کے رہنماخالد مقبول صدیقی ،امارات اسلامی جلال آباد افغانستان کے رکن امین الحق ، بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی ، حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین ودیگر نے اظہار تعزیت کیا۔امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق ،امیر العظیم ،لیاقت بلوچ ،راشد نسیم ،میاں محمد اسلم ،اسد اللہ بھٹو ،پروفیسر محمد ابراہیم ،ڈاکٹر فرید احمد پر اچہ ،ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی ،عبدا لغفار عزیز ،مولانا عبدالمالک ،حافظ محمد ادریس،اظہر اقبال حسن،محمد اصغر ،حافظ ساجد انور ،بخیتار مانی ،سید وقاص انجم جعفری،قیصر شریف ،محمد حسین محنتی ، کاشف سعید شیخ، عبدالوحید قریشی،حافظ نعیم الرحمن ،عبدالوہاب و دیگر قائدین اور کارکنان نے سید منورحسن کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ سید منور حسن کی وفات سے ملک و قوم اور عالم اسلام ایک عظیم اور مخلص قائد سے محروم ہوگئے ۔ سید منور حسن عالمی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے اپنی خاص پہچان اور بلندو بالا مقام رکھتے تھے ۔سید منور حسن نے اپنی پوری زندگی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں گزاری۔سید منور حسن نے امریکی مداخلت کے خلاف ’’گو امریکا گو ‘‘تحریک چلائی۔اس وقت ملک کے بچے بچے کی زبان پرایک ہی نعرہ تھا ’’گو امریکا گو ‘‘ سید منور حسن کے اس وژن کو پوری قوم نے سراہا اور آخر ملک کے مقتدر طبقے اور حکمرانوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ امریکا پاکستان کا خیر خواہ نہیں ۔ سید منور حسن کی جہد مسلسل کی داستان نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔وہ اگست1941ء میں دہلی میں پیدا ہوئے،ان کے والد سید اخلاق حسین دہلی کے ایم بی ہائی اسکول میں پڑھاتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ ایم بی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کی والدہ بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں۔ وہ دہلی کے ایک ایسے معزز گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو 47ء میں ہجرت کے دکھ جھیلتا ہوا پہلے دہلی سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی پہنچا۔ سید منور حسن جن کی عمر اس وقت سن شعور کو چھو رہی تھی، اس خون آشام سفر میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ تھے۔ یوں ان کے سینے پر تمغہ ہجرت بھی سجا ہوا ہے۔انہوں نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے اپنی طلبہ سیاست کا آغاز کیا وہ 1959میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے تاہم کچھ ہی عرصے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کے انقلاب آفرین لٹریچر کے زیراثر ان کی ایسی قلب ماہیئت ہوئی کہ وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے نکل کر اسلامی جمعیت طلبہ کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئے۔سید منورحسن جون 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے۔ اکتوبر 1962ء میں انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔سید منورحسن1962ء میں اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی کے ناظم بھی رہے۔ 1963 ء ہی میں کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے سوشیالوجی میں اور 1966ء میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا۔1963ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم رہے۔27 دسمبر 1964ء کے سالانہ اجتماع میں جمعیت کے ارکان نے انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا۔وہ مسلسل3 مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔سید منورحسن نے 27 دسمبر 1964ء سے 19 نومبر 1967ء تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ان کے دورِ نظامت میں جمعیت نے طلبہ کے مسائل،نظام تعلیم، اور تعلیم ِ نسواں کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے متعدد مہمات کا آغاز کیا۔وہ 13جنوری 1968میں اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہوئے۔زمانہ طالب علمی میں ہی سید منورحسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہوگئے۔وہ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔علاوہ ازیں بیڈمنٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔سید منور حسن نے 1968ء میں ’’جماعت اسلامی پاکستان‘‘ میں شمولیت اختیار کی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں انہوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹوں کی لیڈ سے کامیابی حاصل کی۔لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے یہ انتخابات ہی کالعدم ہو گئے اور اسمبلی کام نہ کرسکی۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ممتاز دانشور جمیل الدین عالی تھے۔سید منورحسن نے1977ء میں چلائی جانے والی تحریک نظام مصطفی ؐ کو کراچی میں منظم کیا۔سید منورحسن 1989ء سے 1991ء تک جماعت اسلامی کراچی میں امیر بھی رہے۔وہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ان کی نگرانی میں اس اکیڈمی نے 70سے زاید علمی کتابیں شائع کیں۔انہوں نے اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے شائع ہونے والے جریدےThe Criterionاور The Universal Messageکی ادارت بھی کی۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی فورمز پر جماعت اسلامی کی نمائندگی کی۔سید منورحسن جنوری1989ء سے نومبر1991ء تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر کے منصب پر فائز رہے۔ سید منور حسن 1992ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کیے گئے۔سید منورحسن 2009ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر مقرر ہوئے ۔وہ 2014ء تک بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان اس منصب پر فائز رہے۔سید منور حسن نے پی این اے ،نظام مصطفی ؐ ،بنگلا دیش نامنظور ،اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل جیسی قومی تحریکوں میں بھر پور حصہ لیا اور نمایاں کردار ادا کیا ۔انہوں نے جماعت اسلامی کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ایک حقیقی اسلامی نظریاتی تحریک کے سانچے میں ڈھالنے اور ارکان جماعت کو للہیت اور خشیت الٰہی کا چلتا پھرتا نمونہ بنانے کے لیے عملی نمونہ پیش کیا۔عالمی اسلامی تحریکوں میں سید منورحسن کا ایک خاص مقام تھا ۔انہوں نے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کے سالانہ اجتماعات ،سیمینارز اور پروگراموں میں شرکت کے لیے امریکا و یورپ ،مغربی ممالک اور مشرق بعید کے متعدد ممالک کے دورے کیے اور اسلامی تحریکوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں ۔سید منور حسن اپنے تقویٰ،زندگی کے رویوں اور معاملات میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد گار تھے جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی سربلندی کی جدوجہد میں گزرا اور جن کا ایک ایک عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کا عکاس اور مظہر تھا۔ دنیا بھر میں تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کروڑوں احباب کے لیے یہ خبر بڑے رنج و غم اورافسوس کے ساتھ سنی اور پڑھی گئی کہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق ناظم اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سید منور حسن کا جمعہ 26جون12.30بجے انتقال ہو گیا ہے۔ سید منور حسن کے انتقال سے پاکستان ایک سچے محب وطن،اسلام کے مخلص داعی ، جابر حکمرانوں کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر کلمہ حق کہنے والے نڈر مجاہد اور ملک میں اسلام کے نفاذ کی زندگی بھر جدوجہد کرنے والے ایک بڑے بے لوث رہنما سے محروم ہوگیا۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوہ محترمہ عائشہ منورسابق رکن قومی اسمبلی و سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین، بیٹے طلحہ منور،بیٹی فاطمہ منور، 2 بھائیوںسید شفیق حسن سابق جنرل منیجر ٹیکسٹائلز، سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن سید ارشاد حسن اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحریک اسلامی کے لاکھوں کارکنوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔