کورونا: مریضوں کی تعداد میں اضافہ کیوں (آخری حصہ)

759

سوال تھا کہ آخر کیا وجہ ہے چار ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان میں کورونا کا نقطہ عروج نہیں آسکا اور صرف خوشحال افراد ہی کیوں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ کم آمدنی والے افراد کا جسمانی مدافعتی نظام اگر اتنا ہی طاقتور ہے کہ کورونا اس کا کچھ نہیں بگاڑ پارہا تو ٹائیفائیڈ، یرقان اور پولیو کیوں اسی طبقے میں عام ہیں۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مذکورہ تینوں بیماریاں خراب پانی کی وجہ سے پھیلتی ہیں اور چونکہ اس طبقے کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے اس لیے وہ ان بیماریوں کے exposure میں ہوتا ہے اور یوں وہ ان بیماریوں کا مسلسل شکار رہتا ہے۔ یہاں سے ہم دوسرا نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ خوشحال طبقہ اس لیے کورونا کا شکار ہے کہ وہ اس کے exposure میں ہے اور کم آمدنی والا طبقہ اس لیے کورونا کا شکار نہیں ہے کہ وہ اس کے exposure میں نہیں ہے۔
گفتگو آگے بڑھانے سے قبل ایک وضاحت۔ دنیا بھر میں فارما انڈسٹری ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ کسی کو علم نہیں ہے کہ اس فارما انڈسٹری کے مالکان کون ہیں۔ 1918 میں پھیلے گئے فلو کی وبائی صورتحال میں بھی یہ فارما انڈسٹری اتنی ہی متحرک تھی اور نپولین کی پوری فوج کو کئی طرح کی ویکسین لگائی گئی تھیں۔ یہ گاڈ فادر کس طرح سے تخمینہ لگاتے ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ انہوں نے کہا کہ چین آبادی سوا ارب افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نصف نے بھی ایک سگریٹ روزانہ پیا تو اس کا مطلب ہے تو 65 کروڑ سگریٹوں کی یومیہ کھپت۔ اب تو ثابت ہوچکا ہے کہ شوگر اور کینسر جیسے امراض انسانی کارنامہ ہیں۔ صرف ان ہی دو امراض میں مبتلا مریضوں سے یہ انڈسٹری اربوں ڈالر یومیہ کماتی ہے۔ کمائی کا یہ تناسب اسلحہ سازی اور پٹرولیم سمیت کسی اور انڈسٹری میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کمپنیاں روز ایک نئی بیماری اسی طرح وجود میں لاتی ہیں جس طرح کمپیوٹر کا وائرس۔ پہلے کمپیوٹر کا وائرس بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اینٹی وائرس کا پروگرام۔ جیسے ہی وائرس لانچ ہوتا ہے، پوری دنیا کے زرخرید میڈیا میں شور مچ جاتا ہے اور پھر آئندہ ہفتے ہی کمپیوٹر کا سافٹ ویئر بنانے والی مائکروسافٹ جیسی بڑی کمپنیاں فخر سے اعلان کرتی ہیں کہ انہوں نے اس کا علاج ڈھونڈھ لیا ہے اور اب مارکیٹ میں نیا اینٹی وائرس سافٹ ویئر دستیاب ہے۔
ایڈز، ایبولا اور زیکا جیسے وائرس جدید دنیا ہی میں متعارف کروائے گئے۔ ایڈز کے بارے میں کہا گیا کہ اسے عالمی ادارہ صحت کے پولیو کے قطرے پلانے والے پروگرام کے ذریعے افریقا میں پھیلایا گیا۔ گو کہ عالمی ادارہ صحت نے بعد میں اس کی نیم دلی سے تردید کی۔ چونکہ پولیو کے مذکورہ قطروں کی کہیں پر بھی کسی آزاد لیبارٹری میں جانچ نہیں کی گئی اس لیے ہمارے پاس کوئی غیر جانبدار اور آزاد ذریعہ نہیں ہے جو یہ بتاسکے کہ تردید حقیقی تھی یا یہ بھی محض جھوٹ تھا۔ زیکا وائرس کے بارے میں فروری 2016 میں پانچ آرٹیکلوں پر مشتمل ایک سیریز میں نے سپرد قلم کی تھی جو میری ویب سائیٹ www.masoodanwar.wordpress.com پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
زیکا وائرس ایک ایسی بیماری تھی جس کے نتیجے میں چھوٹے سر والے ذہنی طور پر اپاہج بچوں کی پیدائش عمل میں آرہی تھی۔ کہا گیا کہ یہ مچھروںکے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ بعد میں تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ جن حاملہ خواتین کو خناق، تشنج اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے لیے تیارہ کردہ ویکسین TDaP لگائی گئی، انہیں کے ہاں اپاہج بچے پیدا ہوئے۔ یہ ویکسین تیار کی تھی فرانس کی Sanofi Pasteur اور برطانیہ کی GSK نے۔ جیسے ہی مذکورہ ویکسین کا استعمال ترک کیا گیا، دنیا سے زیکا وائرس غائب ہوگیا اور اب کسی کو یہ یاد بھی نہیں۔ یہ بات کئی دفعہ ثابت ہوچکی ہے کہ نیسلے جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو غذائی مصنوعات تیار کرتی ہیں، وہ افریقا میں جراثیم پھیلانے میں ملوث رہی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے زیر انتظام چلنے والے ویکسین پروگرام کے ذریعے ہی افریقا میں خوفناک وائرس پھیلائے گئے، یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں نے لیبارٹریوں میں باقاعدہ جراثیم بنائے یا پہلے سے موجود جراثیموں میں جینیاتی تبدیلیاں کیں اور پھر انہیں باقاعدہ افریقا میں لانچ کیا گیا۔ ملیریا پھیلانے والے مچھر بھی اور ملیریا کے مچھروں کا خاتمہ کرنے والے مچھروں کے نام پر نئی بیماریاں پھیلانے والے مچھر بھی ان ہی ادویہ ساز کمپنیوں نے لانچ کیے۔ ان سب میں ایک اور قدر مشترک ہے کہ عمومی طور پر بیماری پھیلانے والے ان وائرسوں کی تحقیق اور تیاری کے لیے فنڈز فراہم کرنے والا ادارہ ملنڈا ینڈ بل گیٹس فاؤنڈیشن ہی تھا۔
دوبارہ سے اصل مدعا کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں ایک خاص طبقہ ہی کیوں کورونا کا شکار ہے اور کیا وجہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کورونا کا نقطہ عروج نہیں آسکا ہے۔ اس کا جواب بوجھنے سے قبل ایک اطلاع۔ چین نے گزشتہ ہفتے ہی امریکا کی پیپسی کمپنی کو چین میں پیپسی فروخت کرنے اور امریکا سے برائلر مرغی کی درآمد پر فوری طور پر پابندی عاید کردی ہے۔ پیپسی کی تیاری اور مرغی کی درآمد پر اس پابندی کا امریکا اور چین کے مابین معاشی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پابندی چین میں کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلنے کے تناظر میں لگائی گئی ہے۔ اب دوبارہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں کہ کم آمدنی والا طبقہ پولیو، گیسٹرو، یرقان اور ٹائیفائیڈ جیسے وائرسوں کا اس لیے مقابلہ نہیں کرپاتا کہ وہ ان وائرسوں کے مسلسل exposure میں ہے۔ یہ خوشحال طبقہ کولڈ ڈرنک بھی پیتا ہے، ان ہی کمپنیوں کا منرل واٹر بھی استعمال کرتا ہے، فاسٹ فوڈ بھی کھاتا ہے۔ یہ سب کچھ کم آمدنی والے طبقے کو دستیاب نہیں ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ اس ضمن میں چین سے معلومات حاصل کی جائیں، خود ہی ان مصنوعات کی لیبارٹری میں جانچ کروائی جائے اور سب سے بڑھ کر تنزانیہ کی طرح کورونا ٹیسٹ کرنے والی kits کی جانچ کی جائے کہ آخر 20 فی صد کے قریب نتائج لازمی طور پر کیوں مثبت آتے ہیں۔ ابھی تک یہ بات ثابت ہے کہ کورونا کے مثبت اور منفی دونوں نتائج قابل اعتبار نہیں ہیں۔ تو پھر اس پر ڈاکٹروں، فارماسسٹ یا مائیکرو بیالوجسٹ کی کوئی تنظیم کام کیوں نہیں کرتی۔ بہتر ہوگا کہ عالمی سازش کاروں کا آلہ کار بننے کے بجائے وجوہات پر غور کیا جائے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔