ـ2ہفتوں میں اہم شخصیات کی جدائی

1006

موت ایک سچی حقیقت ہے جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے پچھلے دو ہفتوں میں ہمارے دوست احباب اور جاننے والوں میں بہت سے لوگ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
سب سے پہلے میں اپنے پیارے دوست نسیم صدیقی کا ذکر کرنا چاہوں گا، 17جون بدھ کی رات ایک بجے سے کچھ پہلے میرے بھتیجے سیف کا فون آیا حالانکہ میں تھوڑی دیر پہلے اسی کے گھر سے آیا تھا اس نے بتایا کے تایا ابو نسیم صدیقی کا انتقال ہو گیا ہے میں نے کہا کیا کہہ رہے ہو بیٹا اس نے بتایا کہ میرے دوست کا فون آیا تھا اور اب تو معراج بھائی نے بھی کنفرم کردیا ہے میں نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور پھر سوچوں میں گم ہوگیا کہ ہمارے اور نسیم صاحب کے تعلقات کب سے تھے اور کیسے تھے میں کوئی ایسا کام سوچ رہا تھا جو میں نے کبھی نسیم بھائی سے کہا ہو اور انہوں نے نہ کیا ہو 1994 میں جب ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی ضلع وسطی کے امیر بنائے گئے تو اس وقت ضلع میں دو اہم چیلنجز ان کے سامنے تھے ایک تو علاقہ نئی کراچی کے تنظیمی مسائل اور دوسرا عثمان پبلک اسکول کوکراچی کا ایک ماڈل اسکول بنانا جس کے لیے سابق امیر ضلع حفیظ اللہ صاحب نے ان کو پہلے سے ذمے داری دی ہوئی تھی۔ نسیم صدیقی معراج بھائی کے خالہ زاد کے ساتھ بہنوئی بھی تھے لیکن اس وجہ سے نہیں بلکہ معراج بھائی نسیم بھائی کی تنظیمی صلاحیتوں سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے نسیم بھائی کی بینک کی ملازمت ختم کرا کے انہیں عثمان پبلک اسکول کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا آج عثمان پبلک اسکول کا پورے ملک میں جماعت کے نظریاتی حوالے سے جو نام اور مقام ہے اس میں معراج بھائی اور ان کی اسکول کی ٹیم کے علاوہ نسیم صدیقی صاحب کی بھی مخلصانہ کوششوں کا بھی عمل دخل ہے۔ جماعت کے اندر بھی نسیم بھائی کی صلاحیتیں بھرپور استعمال ہوئیں کافی عرصے تک وہ علاقہ شمالی ناظم آباد کے ناظم اعلیٰ رہے پھر زون ناتھ ناظم آباد کے امیر بھی رہے، اقبال بھائی جب ضلع وسطی کے امیر ہوئے تو انہوں نے نسیم بھائی کو قیم ضلع بنایا محمد حسین محنتی امیر کراچی تھے تو انہوں نے نسیم صدیقی کو اپنا جنرل سیکرٹری بنایا، نسیم بھائی نے ان تمام ذمے داریوں کو بحسن و خوبی نبھایا، عثمان پبلک اسکول کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے انسپائریشن اسکول سسٹم کے نام سے کئی اسکول بنائے فصیح بھائی کا کہنا ہے انتقال والی رات کو ساڑھ دس بجے ان سے فون پر اسکول کے حوالے سے گفتگو ہوئی اس وقت ان کی طبیعت بہتر تھی پھر تھوڑی دیر کے بعد اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی انہیں پہلے امام کلنک لے جایا گیا وہاں حالت نہیں سنبھل سکی تو پھر ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال لے جایا گیا اسپتال کے گیٹ تک پہنچے ہوں گے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان کے اعمال حسنہ کو بڑی برکتوں کے ساتھ قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
اسی دوران دو دن کے اندر آگے پیچھے شو بزنس دو شخصیات اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ صبیحہ خانم اور طارق عزیز۔ طارق عزیز کا تعارف تو ایک فلمی اداکار کی حیثیت سے ہوا لیکن پی ٹی وی میں نیلام گھر کے میزبان کی حیثیت سے چھائے رہے یہ اس وقت کی بات جب پی ٹی وی واحد چینل تھا پیر کے دن اس کی چھٹی ہوتی تھی اور بقیہ دنوں میں شام پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک اس کی نشریات چلتی تھیں، ویسے تو طارق عزیز سوشلسٹ نظریات کے حامی تھے لیکن ٹی وی پر انہوں نے نیلام گھر کے نام سے ایک معلوماتی اور تفریحی پروگرام شروع کیا جس کا لوگوں کو انتظار رہتا تھا اس پروگرام میں انہوں نے مشرقی تہذیبی روایات کا بھرپور خیال رکھا۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام ایک ایسا منفرد جملہ ہے جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اسی طرح پروگرام کے اختتام پر اپنے پورے وجود اور جوش کے ساتھ پاکستان زندہ باد کہنا ان ہی کا حصہ ہے وہ ایک محب وطن انسان تھے انہوں نے شادی تو کی لیکن ان کے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے انہوں نے اپنی تمام جائداد پاکستان کے نام کردی یہ ان کی حب الوطنی کی درخشاں مثال ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
ان ہی خبروں کے درمیان ایک اور اہم شخصیت کے وفات کی خبر ملی وہ دوست محمد فیضی کی وفات کی خبر تھی جس کو پڑھ کر مجھے ذاتی طور پر بہت دکھ ہوا فیضی صاحب نے جمعیت علمائے پاکستان سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا لیکن ان کی شخصیت پر کالج اور یونیورسٹی کے ڈبیٹر کی حیثیت چھائی رہی یہ اس دور کی بات ہے جب ہماری درس گاہوں میں اسلحہ کے بجائے دلیل کی زبان میں بات کی جاتی تھی دوست محمد فیضی بہترین مقرر تھے طالب علموں کے مباحثوں کے پروگرام کی صدارت کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہفتہ طلبہ کے پروگرام میں سیاستدانوں کا ایک پروگرام اس عنوان سے رکھا کہ قومی انحطاط کے ذمے دار آپ ہیں اس میں انہوں نے دو سیاستدانوں باقی بلوچ اور سید منور حسن کو بلایا۔ طلبہ کا جو پینل اس موضوع پر کہ قومی انحطاط کے ذمے دار آپ ہیں پر گفتگو کرنے کے لیے بنایا گیا اس کے اہم رکن دوست محمد فیضی بھی تھے انہوں نے اس دن جو تقریر کی بڑی معرکہ آرا تھی فیضی صاحب صوبائی وزیر بھی رہے ایک موقع پر جب ضیاء الحق صاحب کا ایک پروگرام پولو گرائونڈ میں ہوا تو وہان تمام صوبائی وزراء نے تقاریر کیں ضیاء صاحب نے آخر میں اپنی تقریر میں کہا صوبائی وزراء کی تقریریں سن کر مجھے ایسا لگا کہ یہ شاید کسی کالج میں طلبہ کا تقریری مقابلہ ہو رہا ہو۔ بہرحال دوست محمد فیضی سے میری تھوڑی بہت سلام دعا رہی ہے وہ ایک خوش گفتار خوش اخلاق اور خوش لباس انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
12جون بروز جمعہ ہم نے جامع مسجد الفلاح بھنگوریا گوٹھ میں اسلام جعفری کی نماز جنازہ پڑھی کچھ روز بعد یونس ڈھاکا والا کی مسجد قباء بندھانی کالونی میں نماز جنازہ پڑھا یہ دونوں ساتھی جماعت کے رکن تھے ان پر پھر کسی موقع پربات کریں گے۔