عمران فاروق کو الطاف حسین کے حکم پر قتل کیا گیا،عدالت ۔خالد شمیم ،معظم علیاور محسن علی کو عمر قید

146

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہوگیامتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا تھا۔ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی اور فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21 مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعرات کو سنادیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ ملزمان کے مقدمے کے ٹرائل کے دوران یہ ثابت ہوا کہ الطاف حسین نے عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا تھا، قتل کا واحد مقصد بانی ایم
کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا۔عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہا،ملزمان کے مجسٹریٹ کو ریکارڈ کرائے گئے اعترافی بیانات اور پیش کردہ شواہد کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں۔عدالت نے متحدہ قومی مومنٹ کے بانی رکن کے قتل کے جرم میں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ عدالت نے تینوں مجرموں پر جرمانے بھی عاید کیے اور 10، 10 لاکھ روپے فی کس مقتول کے اہلخانہ کو ادا کرنے کی کا حکم دیاجب کہ مقدمہ میں الطاف حسین ، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور جائیداد ضبطی کے احکامات بھی دیے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ محسن علی اور کاشف خان کامران کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے قتل کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے چنا گیا۔ قتل کا مقصد لے کر لندن جانے والے دونوں قاتلوں کو باقاعدہ سہولت فراہم کی گئی۔ قتل کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ کوئی پارٹی میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف آواز بلند نہ کر سکے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لندن میں مقیم پارٹی کے 2 سینئر رہنماو¿ں نے الطاف حسین کا حکم پاکستان میں متعلقہ افراد تک پہنچایا، یہ پتا چلا ہے کہ ملزمان معظم علی، نائن زیرو پر کام کرنے والا ایک اور سینئر کارکن اور ملزم خالد شمیم نے عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے ملزم سید محسن علی اور کاشف خان کامران سے رابطہ کیا۔عدالت نے مزید کہا کہ خصوصی طور پر قتل کی غرض سے لندن جانے والے دونوں قاتلوں کو مکمل سہولیات فراہم کی گئیں اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ایک معصوم شخص کا سفاکانہ قتل کردیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم اور قاتلوں کا پہلے سے ایک طے شدہ منصوبہ تھا جس کے تحت وہ عام افراد اور خصوصاً ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ڈرانا، دھمکانا اور خوف دلانا چاہتے تھے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی الطاف حسین کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے۔39 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس دہشت گردی کے مقدمے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، ملزمان سزائے موت کے حقدار ہیں لیکن برطانیہ نے شواہد اس بنیاد پر دیے تھے کہ ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، اس لیے ملزمان کو عمر قید دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 ءکو برطانیہ میں قتل کیا گیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔ ادھر برطانوی ہائی کمیشن نے عمران فاروق قتل کیس کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئیں۔برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائیوں کے بعد مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ لندن کی میٹروپولیٹن کے ثبوت عدالتی کارروائی میں استعمال ہوئے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ محسن علی کو عمران فاروق کے قتل اور سازش کا مرتکب قرار دیا گیا جبکہ محمد کاشف کو بھی شریک مجرم کے طور پر سزا سنائی گئی۔ دونوں مجرموں کے خلاف تحقیقات کے دوران ایم کیو ایم سے تعلق ثابت ہوا۔ تحقیقاتی ٹیم نے تصدیق کی کہ قتل سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوا۔علاوہ ازیں ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ فاروق کا کہنا ہے کہ 2چیزیں بہت طاقتور ہیں صبراور وقت، مجھے شروع سے اللہ پر یقین تھا، جوبھی فیصلہ ہوا بہتر ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پرمزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتی، زندگی دکھ میں گزاررہی ہوں، اللہ دشمن کوبھی یہ وقت نہ دکھائے۔