کورونا اور خوف کا کاروبار

832

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ روز ایک بیان جاری کرتے ہیں جو عمومی طور پر وڈیو کلپ کی صورت میں ہوتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ہر آنے والا دن انتہائی خطرناک ہے اور اگر لاک ڈاؤن مزید سخت نہ کیا گیا تو کراچی کی سڑکوں پر مریض تڑپ رہے ہوں گے اور لاشوں کے ڈھیر ہوں گے۔ کچھ ایسا ہی بیانیہ وفاقی حکومت کے نمائندے ڈاکٹر ظفر مرزا کا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے بیانات کو مزید تقویت دینے کے لیے روز کسی نہ کسی ڈاکٹر کا بیان بھی ہوتا ہے۔ ایک جانب نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا بیان ہوتا ہے کہ وینٹی لیٹر اور بستروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کچھ یہی بات حکومت سندھ بھی بتاتی ہے کہ اسپتالوں میں انتظامات موجود ہیں تو دوسری جانب یہ صورتحال ہے کہ اسپتال کورونا تو کیا کسی بھی مریض کو داخل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ صرف کراچی کی یہ صورتحال ہے کہ جناح اسپتال جیسے مرکزی اسپتال میں صرف پچاس بستر کورونا کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں تو پھر مریضوں کو کیسے داخلہ مل سکتا ہے۔ اس سے خوف و ہراس ہی پھیلتا ہے کہ کورونا کا مرض بے قابو ہوگیا ہے۔ جس شہر میں بچوں کے ایک اسپتال میں سات سو سے زاید بستر ہوں اور مریضوں کا اتنا دباؤ ہو کہ عام طور پر ایک بستر پر دو مریض رکھے جاتے ہوں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچاس بستر کیا کام دکھائیں گے۔ حکومت سندھ نے جگہ جگہ آئسولیشن سینٹر ضرور بنائے ہیں جو بے مصرف ہیں۔ کراچی میں ایکسپو سینٹر میں پندرہ سو بیڈ، پی اے ایف میوزیم میں پانچ سو بیڈ کے علاوہ چہار اور پنج ستارہ ہوٹلوں، درجنوں اسکولوں اور کالجوں میں بھی آئسولیشن مراکز قائم کیے گئے ہیں جن پر کاغذات میں اب تک دسیوں ارب روپے کے اخراجات آچکے ہیں مگر حکومت سندھ نے ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جو اسپتالوں کے لیے درکار ہے۔ عوام کو آئسولیشن مراکز کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ ان کی اکثریت گھر پر قرنطینہ کرنے کو بہتر سمجھتی ہے اور صورتحال ہے بھی یہی۔
میں حکومت سندھ کے اعداد و شمار اس لیے پیش کرتا ہوں کہ حکومت سندھ سب سے زیادہ لاک ڈاؤن کے لیے متحرک ہے اور دوسرے میرے پاس سندھ کے ہی اعداد وشمار تفصیل سے دستیاب ہیں۔ تاہم اس صورتحال کو پورے ملک پر منطبق کیا جاسکتا ہے کہ صورتحال ہر طرف ایک ہی جیسی ہے۔ سندھ حکومت ہی کے پیش کردہ اعداد وشمار کو دیکھتے ہیں کہ صورتحال کیا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف مئی کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں۔ حکومت سندھ کے جاری کردی اعداد و شمار کے مطابق 4 مئی کو 2ہزار 571 تشخیصی ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 307 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے۔ فی صد میں یہ تعداد 13.64 فی صد تھی۔ 8 مئی کو تشخیصی ٹیسٹ کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی اور 5 ہزار 532 ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 598 افراد کے ٹیسٹ مثبت تھے جو 10.81 فی صد تھی۔ 4 مئی سے 23 مئی تک فی صد میں یہ تعداد 10.81 فی صد سے 19.64 فی صد کے درمیان رہی، اوسطاً یہ تعداد 14.06 فی صد تھی۔ 28 مئی کو پہلی مرتبہ فی صد میں یہ تعداد تقریباً 27 فی صد تک جاپہنچی۔ حکومت سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 27 مئی کو 4 ہزار 101 تشخیصی ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 1103 مثبت آئے۔
بار بار وفاقی و صوبائی حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت کم ہے اور اگر ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت دس گنا بڑھا دی جائے تو اصل صورتحال کا علم ہوگا۔ ان بیانات کے مطابق پورے ملک میں کورونا کے مریض موجود ہیں مگر تشخیصی ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پہچان نہیں ہوپا رہی۔ اگر حکومتوں کے اس بیانیے کو تسلیم کرلیا جائے تو سندھ میں ہی کم از کم 14 فی صد مریض موجود ہیں۔ اگر سندھ کی آبادی پانچ کروڑ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے سندھ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 70 لاکھ ہونی چاہیے۔ چونکہ یہ مریض کسی اسپتال میں زیر علاج نہیں ہیں اور free satellite ہیں۔ یہ تو اور بھی زیادہ خطرناک بات ہے یعنی یہ دیگر لوگوں کو بھی انفیکٹ کررہے ہیں۔ اگر ایک مریض کے دس افراد کے انفیکٹ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک پورے پاکستان میں کورونا کا مرض پھیل جانا چاہیے تھا۔ مگر عملی طور پر ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔ کراچی سمیت پورے ملک کی سبزی منڈیاں، ادویات کی تھوک مارکیٹیں، اجناس کی تھوک مارکیٹیں پہلے دن سے کھلی رہیں اور جس طرح سے وہاں پر کاروبار ہوتا ہے، اس کا مشاہدہ سب ہی نے کیا ہے مگر یہ مرض کہیں بھی وبا کی صورت نہیں پھیلا۔ روز لاہور میں نہر میں نہاتے ہزاروں افراد کی تصاویر سب ہی دیکھتے ہیں، ہر جگہ کی ایسی ہی صورتحال ہے مگر کہیں پر صورتحال بے قابو نہیں ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ میںکورونا کے نام پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1.64 فی صد ہے جو فلو سے بھی کم ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے جرثومے کو کسی بھی فرد میں ظاہر ہونے کے لیے دس دن درکار ہوتے ہیں۔ سندھ سمیت پورے ملک میں لاک ڈاؤن کو دو ماہ سے زاید عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے وبائی صورت پاکستان میں اختیار کرنی ہوتی تو کرچکا ہوتا۔
تشخیصی ٹیسٹ کے نتائج کی صورتحال کا اندازہ 23 مارچ کے جنگ میں انصار عباسی کی خبر سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان اور مشیر قانون مرتضیٰ وہاب نے انکشاف کیا ہے کہ صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایسے افراد جن کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے ان کی 90 فی صد تعداد میں بیماری کی علامات موجود نہیں یعنی وہ Asymptomatic ہیں۔ تو جب شہریوں کا اپنا دفاعی نظام کورونا کو شکست دے چکا ہے تو پھر گھبرانے کی کیا بات ہے۔ کیوں لاک ڈاؤن کو بڑھانے کی باتیں کی جارہی ہیں، کیوں صورتحال کو معمول پر نہیں آنے دیا جارہا اور کیوں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔
اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ کورونا اتنی خوفناک بیماری نہیں ہے جتنی دیگر بیماریاں۔ یہ ایک بیماری ضرور ہے مگر اس سے مرنے والوں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے جتنے پاکستان میں ملیریا یا ڈائریا سے ہوتی ہے۔ اگر حکومت کم از کم پانچ بڑی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی تعداد اور ان سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اسی طرح روز نشر کرے جس طرح کورونا کے مریضوں کی کرتی ہے تو ہم صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔ کورونا سے 1.64 فی صد ہلاکت کا مطلب ہے کہ ایک ہزار مریضوں میں سے 9 سو 84 مریض اس بیماری سے صحتیاب ہوجاتے ہیں اور صرف 16 مریض جان سے جاتے ہیں۔ ان مرنے والے 16 مریضوں کی بھی ہسٹری معلوم کی جائے تو ان کے گھر والے بتاتے ہیں کہ اکثریت کسی اور بیماری کے علاج کے لیے اسپتال آئی تھی اور پہلے سے قریب المرگ تھی کہ انہیں زبردستی کورونا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ حکومت خوف و ہراس پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بڑے اسپتالوں کی انتظامیہ کے اپنے مفادات ہیں اور رہ گئے عام ڈاکٹر تو وہ تو عالمی ادارہ صحت کی ہر بات پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جیسے وہ وحی ہو۔ دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار خوف ہے۔ بیماری کو بیماری سمجھیں، اس سے خوفزدہ ہو کر مزید بیماریوں کا شکار نہ ہوں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔