کورونا اور دہشت کا تسلط (2)

823

پھر مزید دھمکی دے گا کہ ہم عوام کو یوں کورونا کے ہاتھوں نہیں مرنے دیں گے، اس لیے جو اپنے دڑبے میں نہیں بند ہوگا، اسے ہم جیل میں بند کردیں گے۔ اس کے بعد حکومت کے کٹھ پتلی ڈاکٹر اپنا اسکرپٹ لے کر پہنچ جائیں گے۔
حکومت کے بیانیے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 18 مارچ کے اخبارات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ لوگ گھروں میں بیٹھ جائیں ورنہ اسپتال کم پڑجائیں گے۔ 23 مارچ کے اخبارات کے مطابق لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کروانے کے لیے فوج طلب کرلی گئی ہے۔ 24 مارچ کے جنگ کے مطابق کورونا وائرس سے پہلا مریض ہلاک، پہلے شخص سے وائرس ہزاروں افراد میں منتقل ہونے کا خدشہ، 24 مارچ ہی کے جنگ میں لندن سے خبردی گئی ہے کہ مردان کا رہائشی سعادت خان کورونا سے مرگیا۔ سعادت خان عمرے کی ادائیگی کے بعد واپس آیا تھا اور آٹھ روز تک بغیر کسی قرنطینہ کے رہا۔ عمرے کے بعد اس نے دعوت دی تھی جس میں دو ہزار سے زاید افراد شریک ہوئے تھے۔ اب پورے مردان میں کورونا کے وبائی صورت میں پھیلنے کے خطرات ہے۔ 5 اپریل کے جنگ کے مطابق حکومت نے عدالت عظمیٰ میں کورونا کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں 25 اپریل تک کورونا کے مریضوں کی تعداد 50 ہزار ہوجائے گی۔ بعد میں وزیر اعظم عمران خان نیازی نے بھی یہی بیان دیا۔ کہا گیا کہ کورونا سے مرنے والوں کا تناسب ڈھائی فی صد سے بڑھ چکا ہے، اس لیے 25 اپریل تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بھی کم از کم 1250 ہوچکی ہوگی۔ 8 اپریل کے جنگ کے مطابق کراچی کے بڑے اسپتالوں کے سربراہوں اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی خواہش پر ملاقات کی اور کہا کہ لاک ڈاؤن کو14 اپریل کے بعد آسان یا نرم نہ کریں کیونکہ اگر لاک ڈاؤن واپس لیا گیا تو یہ وائرس جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وارننگ کے بعد صوبائی حکومت نے سندھ میں لاک ڈائون مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 9 اپریل کے جنگ میں اسلام آباد سے خبر ہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دیہی علاقے موثر انفرا اسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے شدید خطرے میں ہیں اور کورونا کی اگلی منزل دیہی علاقے ہیں، جس سے مریضوں کی تعداد میں اچانک بڑا اضافہ سامنے آنے کا خطرہ ہے۔ 10 اپریل کے جنگ کے مطابق وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ 25 اپریل تک ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ ن لیگ کے مصدق ملک نے کہا کہ اگر مریضوں کی تعداد 70 ہزار ہوئی تو اموات 14 سو ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو لاک ڈاؤن چھ مہینے تک چل سکتا ہے۔ 23 اپریل کے جنگ کے مطابق انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری نے ڈاکٹروں کی دونوں ایسوسی ایشنوںکے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چار روز میں متاثرین کی تعداد 40 فی صد بڑھی ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کو سخت نہ کیا گیا تو مشکل بڑھ جائے گی، مریض تعداد سے زیادہ آگئے تو حالات سنگین ہوجائیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سڑکوں پر مریضوں کا علاج کرنا پڑے، کراچی میں اسپتالوں میں 80فی صد جگہ بھر چکی ہے، اگلے تین چار ہفتے بہت اہم ہیں۔ 24 اپریل کے جنگ کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سدرن کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دو سے چار ہفتے پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔
مگر حقیقت میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اپریل تو دور کی بات اب تو مئی کا پہلا نصف بھی گزر چکا ہے۔ اب پھر کہا جارہا ہے کہ جولائی تک کا وقت اہم ہے، اگر لاک ڈاؤن میں سختی نہ کی گئی تو سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوں گی۔ خود حکومت کے مطابق کورونا کا جرثومہ اگر کسی فرد میں ہے تو 14 دن میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ مگر حکومت کے پاس یہ کون سا جرثومہ ہے جو 20 فروری سے مسلسل پھیل رہا ہے۔ مذکورہ بالا خبروں کی جھلکیوں میں آپ نے دیکھا کہ سرکار اور پریسٹی ٹیوٹ محض خوف پھیلا رہے ہیں۔ اگر صورتحال ایسی ہی ہے جیسا کہ سرکار بتاتی ہے تو بہتر ہوگا کہ سارے قرنطینہ مراکز کی فہرست اور ان میں داخل مریضوں کی فہرست پبلک کی جائے، رپورٹروں کو قرنطینہ مراکز اور اسپتالوں میں access دیا جائے۔ خوف سے باہر آئیے، بیماری کا بیماری کی طرح مقابلہ کیجیے۔ خوف پھیلانے والوں کا بھی محاسبہ کیجیے۔ ایک مرتبہ پھر سے سوچ لیں کہ کہیں خوف کا شکار ہو کر غلام نہ بن بیٹھیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔