اسلام آباد (آن لائن)سنگین جرائم کی تفتیش میں مشکلات اور ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات جاننے سے متعلق کیس کی سماعت گزشتہ روز ا سلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس رپورٹ کے مطابق تو یہ سسٹم خود کرپشن کی ترغیب دے رہا ہے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وی آئی پیزپولیس کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں، پولیس ایکٹ نافذالعمل ہے لیکن اس کے باوجوداسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے ،ہم بطور معاشرہ اس سب کے ذمے دار ہیں، ہائی پروفائل کیسز کو میڈیا پر ہائی لائٹ کیا جاتا ہے لیکن حقیقی مسائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ ہم نے کورونا وائرس سے بھی کچھ نہیں سیکھا،اگر انصاف اس ملک کے ترجیح ہوتی تو ہماری عدالتیں دکانوں میں نہ ہوتیں، بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اب ختم ہونا چاہیے۔قبل ازیں ایڈیشنل آئی جی اسلام آباد نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسر کو ایک کیس کی تفتیش کے لیے صرف 350 روپے ملتے ہیں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر کو کیس کی تفتیش کے لیے صرف 350 روپے دے کر سسٹم خود اسے کہتا ہے کہ کرپشن کرو ۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن اور سابق آئی جی پولیس شعیب سڈل عدالت میں پیش ہوئے ،عدالتی معاونین کو بھی تحریری سفارشات جمع کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میڈیا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہے، آپ بھی اپنی تحریری سفارشات ایک ہفتے میں جمع کرائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وفاق کو جواب جمع کرانے کے لیے 2 ہفتوں کا وقت دیدیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ہفتے میں جواب جمع کرائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی۔