ایرانی فوج نے اپنا ہی جہاز تباہ کردیا،19 اہلکار ہلاک

299

تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) خلیج فارس کے علاقے میں فوجی مشقوں کے دوران ایرانی فوج نے اپنا ہی جہاز میزائل سے تباہ کردیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 19 فوجی ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔ خبررساں اداروں کے مطابق واقعہ تہران سے 790 میل کے فاصلے پر واقع جاسک بندرگاہ کے قریب تربیتی مشقوں کے دوران پیش آیا۔ مشقوں میں شریک ایک ایرانی جنگی جہاز ’’جماران‘‘ سے داغا گیا ایک میزائل حادثاتی طور پر ایک اور جنگی جہاز ’’کونارک‘‘ پر جا گرا۔ ایران کے نیم سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق کونارک جہاز نے ایک ہدف سمندر میں چھوڑنا تھا، جسے جماران بحری بیڑے سے داغے گئے میزائل سے نشانہ بنایا جانا تھا۔ تاہم ہدف چھوڑنے کے بعد کونارک جہاز بھی ہدف کے انتہائی قریب ہی موجود رہا۔ بحریہ کے مطابق اس واقعے کی تکنیکی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کونارک میزائل بردار جنگی بحری جہاز ایران ہی میں تیار کردہ ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق مقامی اسپتال میں ایرانی بحریہ کے 12 اہلکاروں کو داخل کیا گیا ہے، جب کہ دیگر 3 اہلکاروں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سپاہی اور افسران دونوں شامل ہیں۔ ایرانی افواج آبنائے ہرمز میں باقاعدگی سے فوجی مشقیں کرتی رہتی ہیں، جس پر عالمی برادری تشویش کا اظہار بھی کرتی رہی ہے۔ ایران ماضی میں آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی بھی دیتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں فروخت ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ خلیج فارس میں اسی بحری گزر گاہ سے گزر کر جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکرز پر حملے بھی کیے گئے تھے۔ امریکا اور عرب ممالک ایسے حملوں کا الزام ایران پر عائد کرتے رہے ہیں۔ آبنائے ہرمز ہی سے گزشتہ برس ایران نے ایک برطانوی آئل ٹینکر کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جس کے بعد ایران اور برطانیہ کے مابین کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔ امریکا اور مغربی اتحادیوں نے بھی اس اہم آبی تجارتی راستے کے تحفظ کے لیے خطے میں اپنے جنگی بحری بیڑے تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے ماحول میں پیش آیا ہے جب ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر علاحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔ البتہ امریکا کی جانب سے واقعے سے متعلق اب تک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ نے خطے خاص طور پر خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کو بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔