لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہحکومت عالمی مارکیٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرے اور اس کمی کو آئندسال تک برقرار رکھا جائے۔ کورونا وائر س نے عالمی معیشت کو تبا ہ کرکے رکھ دیا ہے۔صنعتیں اور کاروبار بند ہونے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقصان مزدور طبقے کو ہوا ہے۔اس عالمی وبا سے بچ جانے والے مزدور بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ حکومت نے مزدوروں اور کسانوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ہر طرف مہنگائی بے روزگاری کی وجہ سے عوام پریشانیوں اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھ رہے ہیں اور لاکھوں مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت ہنگامی اقدامات کرے اور غریب محنت کشوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے ان کی عملی مدد کی جائے ۔خاص طور پر دہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں راشن پہنچانے کا فوری انتظام کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اس بار مزدور ڈے انتہائی غیر معمولی حالات میں آیا ہے، کورونا لاک ڈاؤن کے باعث مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اس وبا سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن ناگزیر عمل ہے، لیکن اس سے مزدوروں کی قابل رحم حالت مزید آشکارا ہوگئی ہے۔اس لیے اس بار حکمران محض روایتی بیانات جاری کرنے کے بجائے،لیبر کلاس کو درپیش مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں، جس میں فوری طور پر فاقوں سے بچنے کے لیے تیز رفتاری سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگیاں بچائی جا سکیں، مزدور پہلے ہی خوراک کی کمی کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی صحت کے اعتبار سے کمزور ہیں، اس وبا نے تو مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ خود وزیراعظم نے کہا ہے کہ 80 فیصد مزدور رجسٹرڈ نہیں ہیں، ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں غیر روایتی سیکٹر (انفارمل سیکٹر) میں مزدوروں کے لیے رجسٹرریشن کا سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہے لہٰذا فوری طور پر روایتی اور غیر روایتی سیکٹر دونوں میں مزدوروں کی 100 فیصد رجسٹریشن کے لیے مؤثراقدامات کیے جائیں، روایتی سیکٹر(فارمل سیکٹر) میں تقریباً ایک کروڑ لیبر رجسٹر نہیں ہیں، یہ کام کارخانہ داروں اور حکومتی محکمہ جات کی ملی بھگت ہے، ٹھیکیداری اور یومیہ اجرت کے نظام کو اس لیے اپنایا گیا تاکہ ان پر لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کا اطلاق نہ ہو، اس وقت اعدادو شمار کے مطابق فارمل سیکٹر میں ایک کروڑ لیبر ہیں،جب کہ لیبر قوانین کا اطلاق صرف 35،36 لاکھ پر ہے، اور سماجی تحفظ کے قوانین کا اطلاق 20،22 لاکھ ہے، اعدادو شمار کے مطابق پونے 6 کروڑ مزدور انفارمل سیکٹر میں کام کرتے ہیں، جن کی زیادہ تعداد پہلے ہی جزوی بے روزگاری کا شکار ہے، غیر روایتی سیکٹر میں کسان، منڈی، بازار، تعمیرات، کانوں میں کام کرنے والے کان کن، فشریز، بھٹہ، گھروں، ہوٹلوں، دکانوں پر کام کرنے والے، رکشہ ٹیکسی ڈرائیور، چھابہ فروش شامل ہیں پہلے ان کی رجسٹریشن کی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ لیبر قوانین اور سماجی قوانین کا دائرہ ان تک بڑھایا جائے،لیبر قوانین کی خامیاں دور کی جائیں، انہیں مؤثر بنایا جائے، لیبر قوانین اور سماجی تحفظ قوانین پر عمل درآمد کرنے والی مشینری کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے، کم از کم تنخواہ کا تعین اس طرح کیا جائے کہ ایک فیملی کا گزر بسر یقینی ہوجائے اور تنخواہ میں تفاوت کو ختم کرکے ایک اور 6 کیا جائے۔ تمام مزدوروں کو سوشل سیکورٹی لازمی فراہم کی جائے تاکہ تعلیم اور علاج سے کوئی محروم نہ ہو۔ کارخانوں سے ٹھیکیداری اور یومیہ اجرت کے نظام کو ختم کیا جائے اوران کو مستقل ملازمتیں دی جائیں، لاک ڈاؤن میں برطرف کیے گئے تمام ملازمین کو بحال کیا جائے اور انہیں تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ لاک دائون کے بعد دنیا بھر میں کاروبار کھولے جارہے ہیں ۔کارخانے اور صنعتیں چالو کی جارہی ہیںمگر ہماری حکومت اب بھی گومگو کی حالت میں ہے اور ہر شہری مستقبل کے حوالے سے شدید خدشات میں گھراہوا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر آئندہ پالیسی کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیں۔انہوںنے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا فائدہ پاکستان کے عوام کونہیں پہنچنے دیا گیا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو توحکومت اوگرا کی سفارش سے بھی زیادہ کردیتی ہے اور جب کمی کرنا ہو تو کسی سفارش کو نہیں مانتی۔عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کے باجود ہمارے ہاں ابھی تک ڈیزل 100روپے لیٹر سے زیادہ نرخ پر بیچا جارہا ہے۔حکومت عالمی مارکیٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرے اور اس کمی کو آئندسال تک برقرار رکھا جائے۔