کورونا : ماہرین کیا کہتے ہیں

1149

کورونا کے نام پر اسپتالوں میں کتنے مریض داخل ہیں اور جتنے افراد کی موت کورونا کے نام پر ہوئی ہے، کیا ان کی موت کی وجہ سچ میں کورونا ہی تھی۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سیاہ و سفید میں ہمیں پاکستان سمیت پوری دنیا میں کہیں پر نہیں ملتا۔ کراچی ہی کے حالات دیکھ لیں کہ سیاہ وسفید میں کوئی اعداد و شمار دینے کو تیار نہیں ہے کہ جتنے افراد کی موت کا اعلان کورونا کے نام پر کیا گیا ہے، ان کی عمر کیا تھی، انہیں پہلے سے کیا کیا بیماریاں لاحق تھیں، جس وقت انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا، کس مرض کی شکایت تھی وغیرہ وغیرہ۔ جو اطلاعات جمع ہوسکی ہیں، ان کے مطابق اس میں بہت کچھ جھوٹ شامل ہے۔ میڈیا صرف اسٹینوگرافر کا کام کررہا ہے۔ جو سرکاری اعلان کردیا جاتا ہے، اس کی گردان میں آئندہ 24گھنٹے مصروف ہوجاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو کورونا کے ایک ایسے جھوٹ اور فریب میں مشغول کردیا گیا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں سچائی سے آگاہ کرے تو بھی لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا ایسا ٹیسٹ ہے جس سے یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ فلاں مریض کو کورونا ہے کہ نہیں۔ عام آدمی تو دور کی بات ہے، ایک عام ڈاکٹر کا بھی ذکر نہ کریں، جو لوگ کورونا کا علاج کررہے ہیں اور جو لوگ اس کے ٹیسٹ کررہے ہیں، ان سے بھی پوچھیں تو یہی جواب ملتا ہے کہ کورونا کے ٹیسٹ کی کٹ درآمد شدہ ہیں، ان سے مریض کی ناک سے لیا گیا نمونہ یا خون کا نمونہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے پتا چل جاتا ہے کہ مذکورہ شخص میں کورونا کا وائرس ہے کہ نہیں۔ اس ٹیسٹ کو عمومی طور پر PCR کہا جاتا ہے۔ ایک امریکی ماہر ڈاکٹر اینڈریو کافمین نے بتایا کہ کورونا کا ٹیسٹ اصل میں ہوتا کیا ہے۔ ڈاکٹر کافمین میڈیکل یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا ہیماٹولوجی اور آنکولوجی کے انسٹرکٹر رہ چکے ہیں، اسی اسپتال میں ڈاکٹر آف میڈیسن بھی رہ چکے ہیں وغیرہ وغیرہ، انہوں نے دیگر چار ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ اسکائپ پر اس موضوع پر گفتگو کی اور تقریباً 38 منٹ کی اس وڈیو میں کورونا کے وبائی ہونے کا پوسٹ مارٹم کیا۔ ڈاکٹر کافمین نے بتایا کہ اصل میں ٹیسٹ RNA کا ہوتا ہے اور کورونا کے مریض کے RNA میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے، وہی فلو کے مریض میں بھی ہوتی ہے، اس لیے فلو کے مریضوں کو بھی مزے سے کورونا کا مریض ہونے کا اعلان سند کے ساتھ کردیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس پر مزید تحقیق کرنا چاہیں وہ اس وڈیو کو اس لنک پر https://youtu.be/Xr8Dy5mnYx8 دیکھ سکتے ہیں۔
اس بارے میں پہلے ہی آوازیں بلند کی جارہی تھیں کہ فلو کے مریضوں کو بھی کورونا کا مریض ڈیکلیئر کیا جارہا ہے۔ اب جیسے ہی فلو کا سیزن ختم ہوا اور ملیریا کا سیزن شروع ہوا، اب کورونا کے بارے میں نئی گائیڈ لائنز دے دی گئی ہیں کہ کورونا کی علامات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب جو فرد سردی کے ساتھ کپکپاتا ہوا بخار میں پایا جائے، اسے بھی اب کورونا کا مشتبہ مریض سمجھا جائے گا۔ یہ بات عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ ساری علامات ملیریا کی ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملیریا عام ہے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ اب ملیریا کے مریضوں کو بھی کورونا کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ دنیا میں کورونا کی وبا تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں کیا گیا جب حکومت برطانیہ نے سرکاری طور پر کورونا کو تیزی کے ساتھ پھیلنے والی بیماری کی فہرست HCID سے باہر نکال دیا۔ حکومت برطانیہ کا یہ فرمان بھی اس لنک https://www.gov.uk/guidance/
high-consequence-infectious-
diseases-hcid#definition
-of-hcid میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
سندھ کی صورتحال تو سامنے ہی ہے کہ کس طرح سے سرطان، دل اور گردے کے مرض کے سبب مرنے والوں کو زبردستی کورونا کا مریض ہونے کا اعلان کیا گیا۔ یہ صورتحال صرف سندھ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس پر پوری دنیا میں عمل کیا گیا۔ امریکی ریاست مونتانا کی ڈاکٹر Annie Bukacek نے بتایا کہ کس طرح سے کورونا کے ڈیتھ سرٹیفکٹ میں ہیرا پھیری کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اینی کو https://m.youtube.com/
watch?time_continue=
1052&feature=emb_title&v=_
5wn1qs_bBk اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے۔
نیویارک سٹی میں واقع راکفیلر یونیورسٹی کے شعبہ بائیو اسٹیٹکس، ایپی ڈیمیالوجی اور ریسرچ ڈیزائن کے شعبہ کے طویل عرصے تک سربراہ رہنے والے Knut Wittkowski لاک ڈاؤن کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس صورت میں بیماری زیادہ پھیلے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف بیمار اور عمر رسیدہ افراد کو احتیاط کے طور پر گھروں میں رکھا جائے اور بقیہ زندگی معمول کے مطابق گزارنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا طویل انٹرویو اس لنک https://www.thecollegefix
.com/epidemiologist-coronavirus-
could-be-exterminated-if-
lockdowns-were-lifted/ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایپی ڈیمیالوجسٹ اور اس کے میٹا ریسرچ اننویشن سینٹر کے کو ڈائریکٹر John Ioannidis کا کہنا ہے کہ کورونا کا لاک ڈاؤن محض غلط ڈیٹا کی بناء پر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کورونا کا شور نہ مچایا جاتا تو کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور لوگ یہی سمجھتے کہ فلو کی وجہ سے ایک اور انتقال ہوگیا۔ جون کا ریسرچ پیپر اس لنک https://www.thecollegefix.
com/stanford-epidemiologist-
warns-that-coronavirus-
crackdown-is-based-on-
bad-data/ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ اور پنسلوانیا یونیورسٹی کے ماہرین نے سماجی فاصلے کی مخالفت کی اور اسے کار محض قرار دیا۔ ان ماہرین کی آرا اس لنک https://www.thecollegefix.com/
university-researchers-
find-no-additional-decline-in-
coronavirus-infection-
rate-from-lockdowns/ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
اس طرح کی کئی اور بھی آرا ہیں جنہیں پیش کیا جاسکتا ہے۔ میں اتنے لنک مضمون میں ڈالنے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں مگر یہ اس لیے ضروری تھے کہ معترضین کا اصرار ہے کہ حوالے ضرور دیے جائیں۔
کورونا کے بارے میں پہلا مضمون میں نے 28 جنوری کو سپرد قلم کیا تھا، اس دن سے لے کر اب تک جو خدشات ظاہر کیے، بدقسمتی سے وہ درست ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ ایک اچھے صحافی اور قاری دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کہی ہوئی بات پر یقین کرنے کے بجائے خود اصل بات تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہتر ہوگا کہ دیے گئے لنک پڑھے بھی جائیں اور سنے بھی جائیں۔ اس سے بہت سارے ابہام ختم بھی ہوں گے اور جعلی اسموک اسکرین کا بھی خاتمہ ہوگا۔ اسے ہم بدقسمتی ہی کہیں گے کہ پاکستان میں وہ ڈاکٹر جو اس شعبے سے وابستہ نہیں ہیں اور ان کی معلومات اس کے متعلق اتنی ہی واجبی ہیں جتنی کہ ایک عام فرد کی، وہ پریس کانفرنسیں کرکے اس کا خوف پھیلانے میں آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔