واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) تہران پر عائد امریکی پابندیوں کے نتیجے میں چین اور ایران کے درمیان تجارت کا حجم کئی دہائیوں کی نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف امریکی نیوز ایجنسی بلومبرگ نے کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے بیچ تجارت ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے، جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ چین کے محکمہ کسٹم نے گزشتہ جمعرات کو بتایا تھا کہ رواں سال مارچ میں ایرانی تیل کی علانیہ درآمدات کی مالیت صرف 11.5 کروڑ ڈالر رہی۔ یہ سالانہ بنیادوں پر 89فیصد کی کمی ہے۔ تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصے سے چین نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کم کرنا شروع کر دیے تھے۔ چین اور ایران کے درمیان تجارت میں مرکزی حیثیت ادا کرنے والے کونلون بینک کی پالیسی میں بھی واضح تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح ایران بھی اپنی معیشت کی نمو کے لیے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتا آیا ہے۔ لہٰذا موجودہ صورت حال تہران کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ رواں سال مارچ میں چین کے لیے ایران کی غیر تیل برآمدات کا حجم 38.4 کروڑ ڈالر پر ٹھہرا رہا۔ گزشتہ برس ستمبر سے ایران کو چین کے ساتھ تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران سنگین تر ہو گیا۔ چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر ٹرمپ انتظامیہ کے دستخط کرنے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل واشنگٹن نے تہران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کا براہِ راست اثر پڑا اور کونلون بینک نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تہران کا تجارتی دائرہ کار محدود ہو گیا۔ مذکورہ بینک نے اپنے ایرانی ایجنٹس کو آگاہ کر دیا تھا کہ 9 اپریل کے بعد تعمیرات، کان کنی اور ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبوں میں کسی قسم کی تجارتی ادائیگی قبول نہیں کی جائے گی۔ بینک کا کہنا تھا کہ اس کی خدمات صرف انسانی امداد پر مشتمل سامان اور پابندیوں کی تحت نہ آنے والی صنعتوں تک محدود ہوں گی۔ دیگر ممالک کی طرح چین نے بھی اس ضرر کی تلافی کی کوشش کی جو ایران کو مدد پیش کرنے کے دوران کورونا وائرس کے پھیلنے کے سبب چین کی ساکھ کو پہنچا تھا۔