کورونا لاک ڈاؤن اور مراد علی شاہ

790

کورونا کے نام پر کراچی میں ہونے والے لاک ڈاؤن کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال تو ابھرتا ہے کہ کیا کراچی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہے اور یہاں پر مودی کی حکومت ہے۔ جس طرح سے منظم طریقے سے اہل کراچی کا معاشی قتل عام کیا جارہا ہے، اس کی مثال شاید ہولوکاسٹ ہی سے مل سکے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اس بارے میں ہر جگہ ہی موت کی خاموشی ہے اور کہیں سے کوئی دبی ہوئی احتجاجی آواز بھی نہیں ہے۔ کم ا ز کم کراچی کی سطح تک تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ لاک ڈاؤن کا بنیادی مقصد کہیں سے کورونا کو پھیلنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ اس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ کس سے کتنی حد تک مال بٹورا جاسکتا ہے۔ چھوٹی دکانوں سے پولیس اہلکار جتنا ہوسکتا ہے، اتنا مال بٹور رہے ہیں اور بڑے اسٹوروں اور مارکیٹوں سے سندھ حکومت براہ راست ڈیل کررہی ہے۔ ڈیفنس میں واقع ایک اسٹور کی چین جس کے چار اسٹورز ہیں، سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ چاروں اسٹور کھلے رکھنے کے لیے چار لاکھ روپے فی ہفتہ ادائیگی کررہے ہیں، اسی طرح میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ طارق روڈ پر پیچھے موٹر مکینکوں کی مارکیٹ سے چار تا پانچ ہزار روپے فی ہفتہ دکان کھلا رکھنے کے لیے طلب کیا جارہا ہے۔ جن لوگوں نے یہ ادائیگی کردی ہے، وہ کاروبار کررہے ہیں اور جو لوگ اس کی سکت نہیں رکھتے، وہ سزا پارہے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کو جلانے کا واقعہ بھی کراچی ہی کا ہے جس میں مالکان نے کئی کروڑ روپے بھتے کی ادائیگی کردی تھی مگر وہ مطلوبہ 25 کروڑ روپے دینے پر راضی نہیں تھے جس پر ان کی فیکٹری ہی جلادی گئی جس میں ڈھائی سو سے زاید زندہ افراد جل کر مر گئے۔ ان مزدوروں کی موت کی تلافی کے لیے جرمن درآمد کنندہ نے رقم جمع کروادی ہے مگر موجودہ سندھ حکومت اس رقم کو دبا کر بیٹھی ہے اور وہ یہ رقم بھی متاثرین کو ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سید مراد علی شاہ کا سارا زور اس پر ہے کہ کورونا کی وبا اب پھوٹی کہ تب پھوٹی۔ کورونا کی وبا کو ہولناک ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہر جتن کرڈالے۔ ہر اسپتال کو ہدایت جاری کردی گئی کہ کسی بھی مریض کا چاہے جس مرض سے انتقال ہو، اسے کورونا ہی کا مریض ڈیکلیئر کرنا ہے۔ یہ بات ثابت ہونے کے بعد بھی کہ یہ جعلسازی ہورہی ہے، سارے ہی اسپتالوں کے ڈاکٹر اللہ سے بے خوف ہو کر مراد علی شاہ کے خوف میں یہ حرکت کررہے ہیں۔ پورا میڈیا اسی مہم پر لگایا ہوا ہے اور یہ مہم اتنے بھونڈے طریقے پر جاچکی ہے کہ جو لوگ ابتدا میں مراد علی شاہ کے بیانیے پر یقین کرچکے تھے، اب وہ بھی مراد علی شاہ کے بیانیے سے متنفر ہوکر کھلے عام گالیاں اور بددعائیں دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ کمال تو مراد علی شاہ نے یہ کیا کہ اپنے کٹھ پتلی ڈاکٹروں سے لگاتار پریس کانفرنس کروائی کہ کراچی میں کورونا کی وبا اس صورتحال پر پہنچ چکی ہے کہ سارے اسپتال بھر چکے ہیں اور اگر مزید مریض آئے تو ان کا علاج فٹ پاتھوں پر کرنا پڑے گا۔ جس وقت یہ ڈاکٹر پریس کانفرنس کررہے تھے، اس وقت بھی کراچی ایکسپو میں واقع پاک آرمی فیلڈ آئسولیشن سینٹر جس میں مریضوں کو رکھنے کی صلاحیت ایک ہزار ہے، وہاں پر صرف 89 مریض داخل تھے۔ اس صورتحال کا بار بار انکشاف کرنے پر پاک آرمی فیلڈ آئسولیش سینٹر نے اب اپنے اعداد و شمار دینے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اب اس اسپتال کی صلاحیت مزید 15 سو مریضوں کی بڑھائی جارہی ہے یعنی یہاں پر ڈھائی ہزار مریض رکھے جاسکیں گے۔ حیدرآباد میں نیاز اسٹیڈیم میں واقع آئسولیشن سینٹر بھی تقریباً خالی ہے۔ پاکستان ریلوے کا بوگیوں میں بنایا گیا آئسولیشن سینٹر خالی۔ اسپتالوں میں دو سو مریض بھی داخل نہیں ہیں اور ان میں سے ایک بھی نازک حالت میں نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کراچی کو سید مراد علی شاہ نے اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والوں میں سے ایک بھی وائرولوجی کا ماہر نہیں تھا۔ ایک صاحب ناک کان حلق کے ڈاکٹر تھے تو دوسرے محض ایک ایڈمنسٹریٹر، تیسرے محض ایک ایم بی بی ایس۔ بقیہ کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ اس کے بعد دوسری کانفرنس لیڈی ڈاکٹروں سے کروائی گئی جنہیں کورونا کے بارے میں اتنا ہی علم ہے جتنا روز میڈیا بتاتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں بھی ایچ ای جے کا مرکز اس پر کام کررہا ہے جو کیمیا سے متعلق ہے۔ یہ فیلڈ مائیکرو بیالوجی کی ہے مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان میں مائیکرو بیالوجسٹ ہی منظر سے غائب ہیں۔ مراد علی شاہ جس انداز میں کورونا کی پروجیکشن کررہے ہیں وہ کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک اگر ایک بیٹسمین ایک اوور میں چھ چھکے مارتا ہے تو وہ آئندہ دس اوورز میں 360 رنز بنالے گا۔ اگر ایک دن میں 60 اوورز پھینکے گئے تو وہ 2160 رنز بنالے گا اور اگر پانچ روز کا میچ ہوا تو پھر وہ 10,800 رنز بنا چکا ہوگا۔ جبکہ ایسا ہے نہیں۔
میں پہلے بھی اس کی مثال دے چکا ہوں۔ 15 اپریل کو کورونا: حقیقت کیا ہے، کے نام سے ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا، اس سے ایک اقتباس جو اسی طرح کی پروجیکشن سے متعلق ہے۔ ’سوشل میڈیا کے جانباز ہوں یا مین اسٹریم میڈیا پر پھولی سانسوںکے ساتھ بریکنگ نیوز دینے والے، ان کے پاس اپنے دعووں کو سچ کو ثابت کرنے کے لیے نہ تو کوئی اعداد و شمار ہیں اور نہ ہی ثبوت، بس خوف کا پیدا کردہ ماحول ہے جس سے یہ کام لے رہے ہیں۔ کیا کورونا پاکستان میں وبا کی صورت پھیل رہا ہے، اس بارے میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں۔ ایسا کہیں پر نہیں ہے کہ کورونا مسلسل ضرب پارہا ہے اور ایک فرد سے دس افراد کو اور پھر ان دس افراد سے مزید سو افراد میں یہ مرض پھیل رہا ہے۔ یعنی پہلے دن ایک مریض، اگلے دن دس مریض اور اس سے اگلے دن ایک ہزار مریض اور اس سے اگلے دن دس ہزار مریض وغیرہ وغیرہ۔ اگر ایسا ہوتا تو اب تک صرف پہلے مریض یحییٰ جعفری ہی سے منتقل ہونے والا جرثومہ 20 فروری سے لے کر 26 فروری تک جب اس میں مرض کی تشخیص ہوئی، ان چھ دنوں میں اس رفتار سے کراچی میں دس لاکھ افراد میں کورونا پھیل جانا چاہیے تھا۔ اور دس دنوں میں اس کے مریض ضرب پاکر 10 ارب ہوجانے چاہیے تھے۔ مگر ایسا تو نہیں ہوا۔
معاملہ صرف یحییٰ جعفری تک ہی محدود نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے بہنوئی اور سائٹ لمیٹڈ کے سربراہ سید مہدی علی شاہ جب زیارتوں کے بعد کراچی ائرپورٹ پر اترے تو ان کی اسکریننگ نہیں کرنے دی گئی اور انہیں وی آئی پی پروٹوکول میں باہر لے جایا گیا۔ جب ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے گئے تو کہا گیا کہ ان کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔ اس عرصے میں وہ دفتر بھی جاتے رہے اور دوستوں سے میل ملاپ بھی جاری رہا۔ بعد ازاں انہیں کراچی کے معروف ساؤتھ سٹی اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں پر وہ انتقال کرگئے۔ یہ پورا عرصہ کوئی ایک ماہ سے زاید عرصے پر محیط ہے جس میں ان کی ملاقات بلاشبہ گھر والوں کے علاوہ سیکڑوں افراد سے رہی مگر ان کے گھر والوں سمیت کسی بھی فرد میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی میں جتنا سخت لاک ڈاؤن کیا، اتنا پورے صوبے میں کہیں پر نہیں کیا گیا مگر کراچی میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں پر آج تک زندگی معمول کے مطابق ہے اور وہاں پر لاک ڈاؤن کے کوئی اثرات نہیں پڑے۔ یہ ہے کراچی کی سبزی اور پھل منڈی۔ یہاں پر کچرے کے ڈھیر اور ان پر بھنکتی مکھیوں کے غول اسی طرح نظر آتے ہیں۔ مزدوروں سے لے کر خریداروں اور فروخت کرنے والوں کا ہجوم بھی ہر روز معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ یہاں پر پورے صوبے سے پھل اور سبزی لے کر ٹرک روز آتے بھی ہیں اور دوبارہ کھیت و باغات بھی جاتے ہیں۔ اگر کورونا اسی طرح پھیل رہا ہوتا، جس طرح سے بتایا گیا ہے تو اب تک کراچی کی پھل اور سبزی منڈی میں ایک بھی فرد اس طرح کا نہ بچتا جو کورونا کا مریض نہ ہوتا اور اسی طرح ان علاقوں میں بھی یہ مرض پھیل چکا ہوتا جہاں پر پھل اور سبزی لینے یہ ٹرک واپس جاتے ہیں۔
ان ٹرک ڈرائیوروں اور مزدوروں کے گھر والے تو لازمی طور پر کورونا کے مریض ہوتے۔ اسی طرح یہاں پر خریداری کرنے والے مستقل لوگ ہیں اور روز ہی آتے ہیں، انہیں پورے کراچی کو کورونا زدہ کردینا چاہیے تھا مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور کراچی کی پھل و سبزی منڈی میں کام کرنے والے، آنے اور جانے والے سب کے سب اتنی اور ایسی ہی بیماریوں کا شکار ہیں یا صحت مند ہیں جتنا کورونا کے خوف سے پہلے تھے۔ صرف یحییٰ جعفری اور سید مہدی علی شاہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں جن کے کورونا کے ٹیسٹ مثبت آئے اور وہ عام لوگوں میں کئی دنوں اور ہفتوں تک گھلے ملے رہے مگر ان کے آس پاس یہ مرض اس طرح سے نہیں پھیلا، جس طرح سے دعویٰ کیا گیا اور پھر ان دعووں کے بل پر پہلے کراچی اور پھر پورے ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا گیا۔
کورونا کے بارے میں دنیا کے ماہرین کیا کہتے ہیں، اس بارے میں گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔