کورونا کے بعد کی دنیا

1195

تاش کے سارے کے سارے پتے کھل چکے ہیں اور کھیل واضح ہوچکا ہے کہ کورونا کس مقصد کے لیے لایا گیا اور اس سے کیا مطلوب ہے۔ جیسا کہ میںنے اپنے مضمون نائن الیون اور کورونا (شائع شدہ 17 مارچ 2020) میں لکھا تھا، ’’نائن الیون جدید دنیا کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد سے دنیا یکسر تبدیل ہوگئی۔ نائن الیون ایک کامیاب تجربہ تھا جس کے بعد دہشت گردی کے نام پر کسی بھی ملک پر لشکر کشی اور انسان کی اپنی حفاظت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کی معطلی و ضبطگی دنیا کا آسان ترین کام بن گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں اس دنیا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، نائن الیون سے قبل اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کچھ یہی صورتحال کورونا وائرس کے نئے ایڈیشن کے بعد دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس Ncovid 19 سے قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی بھی ملک خود ہی اپنا مقاطعہ بھی کرسکتا ہے، خود ہی پوری دنیا سے اپنا ہر قسم کا رابطہ بھی منقطع کرسکتا ہے اور اپنے ہی پورے کے پورے شہر کو قید خانے میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد یہ سب کچھ انتہائی کامیابی سے ہوا کہ شہریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید تنہائی کا شکار کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایک کرکے سارے ملک اپنے آپ کو ازخود لاک ڈاؤن کرتے جارہے ہیں‘‘۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی لائی جارہی ہے یعنی شہریوں کو اپنے کام کے مقامات پر جانے کی اجازت دی جارہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب پرانے معمولات بحال ہوجائیں گے۔ جس طرح سے نائن الیون کے بعد سے جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، وہ ختم نہیں کی گئیں بلکہ ان میں سختی ہی لائی جاتی رہی ہے۔ بالکل اسی طرح اب دنیا قبل از کورونا والے مرحلے میں دوبارہ سے واپس نہیں جاپائے گی۔ جہاں جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے، وہاں وہاں یہ امر واضح کیا جارہا ہے کہ اب وہ کورونا کے zone A سے نکل کر zone B میں جارہے ہیں جہاں پر ماسک، جسمانی فاصلے سمیت ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ (ایک فرد سے دوسرے فرد میں کورونا کو پھیلنے سے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی طور پر social distance یعنی سماجی فاصلے کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے جبکہ عملی طور پر ہدایت physical distance رکھنے کی جاتی ہے۔ سماجی فاصلے کا مطلب ہے کہ مواصلاتی رابطہ بھی محدود کردیا جائے۔ یہ بھی ایک طے شدہ ہدف ہے کہ انسان کو سماجی طور پر تنہا کردیا جائے کہ ایک جماعت کے مقابلے میں ایک فرد کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے، اس کے لیے دیکھیے کہ تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے)۔ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے کہا جارہا کہ کام کے مقام پر شفٹیں لائی جائیں اور جو کام گھر سے ہوسکتا ہے وہ گھر سے لیا جائے۔ بازاروں میں ہجوم کے بجائے آن لائن شاپنگ کی جائے، ریسٹورنٹ میں جانے کے بجائے ہوم ڈلیوری سے کام لیا جائے۔ کسی کانفرنس یا سیمینار میں جانے کے بجائے وڈیو کانفرنسنگ کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے طلبہ کی تعداد کو تین شفٹوں میں تقسیم کردیا جائے۔ زیادہ تر کورس آن لائن کروائے جائیں۔ یہ سب کروانے کے لیے مزید خوف یہ پھیلایا جارہا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ آنے والے موسم سرما میں یہ کورونا پہلے سے زیادہ شدت سے پھیلے گا اور زیادہ ہلاکت آفریں ہوگا۔ چونکہ جسمانی فاصلے کے نام پر خوف بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے اسکولوں میں بچے اب پہلے کی طرح گھل مل کر کھیل بھی نہیں سکیں گے اور نہ ہی پارٹیاں ہوسکیں گی۔ یہ real world سے ایک virtual world کی طرف transformation ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہورہا ہے۔ یہ ہے وہ سماجی فاصلہ جو نادیدہ ہے اور ابھی کسی کو محسوس نہیں ہورہا ہے۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی نزلہ، زکام اور بخار جیسی بیماریاں عام بات ہیں اور ان سے اموات بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ خود عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں ساڑھے چھ لاکھ افراد فلو کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر اب بخار کو خوف کی علامت بنادیا گیا ہے۔ ہر شخص یہ بھی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بخار بذات خود کوئی مرض نہیں ہے بلکہ یہ کسی مرض کی وجہ سے ہوتا ہے اور جیسے ہی مرض کا علاج کیا جائے، بخار خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ جن امراض سے بخار ہوتا ہے، ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ حتیٰ کہ کسی کے پھوڑے میں پس پڑجائے تو اس سے بھی بخار ہوجاتا ہے۔ اسے پروپیگنڈے کا کمال کہیے کہ اب کسی کو بخار ہوا نہیں کہ ڈاکٹر اس مریض کو دیکھنے ہی سے انکار کردیتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے وہی سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ نہ صرف خوفزدہ ہیں بلکہ وہ اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں سب سے موثر آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
اب یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ جب تک کورونا کی ویکسین پوری دنیا میں نہ لگادی جائے، اس وقت تک لاک ڈاؤن کے SOPs پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ سات ارب کی آبادی کے لیے ویکسین کی تیاری کے لیے دنیا کی کئی کمپنیاں مل کر یہ ویکسین بنائیں گی بلکہ ان کے لائسنس کے تحت ہر ملک میں یہ بنائی جائے گی۔ ہر شخص کو مانیٹر کیا جائے گا کہ اس نے ویکسین لگوائی کہ نہیں، اس کے لیے RFID کا منصوبہ تو ہے ہی۔ چونکہ فوری طور پر سات ارب کی آبادی کو نہ تو ویکسین لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی RFID اس لیے ان کی کلائی پر ایک کڑا wrist band پہنا دیا جائے گا۔
دنیا کو تیزی سے نیو ورلڈ آرڈر کی طرف لے جارہا ہے۔ اب تو کچھ بھی خفیہ نہیں رہ گیا ہے تاہم جنہیں اس بارے میں کوئی ابہام ہے تو آئندہ چند ماہ میں روشن سورج کی طرح سب کچھ سامنے ہوگا۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔