کورونا مریض صرف 5 ہزار،کھربوں روپے کیسے خرچ ہوگئے،شفافیت نہیں،چیف جسٹس

147

اسلام آباد( نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا ہے کہ کورونا مریض صرف 5 ہزار ہیں تو کھربوں روپے کیسے خرچ ہوگئے؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کسی کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی،عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے،حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے،کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی۔پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر عہدیدار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت عظمیٰ نے حکومتی اقدامات اور فنڈز اخراجات پر متعدد سوالات اٹھائے۔چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر کہا کہ صوبوں اور وفاق کے مابین کوئی طریقہ کار دکھائی نہیں دے رہا،بیت المال والوں نے عدالت میں جواب بھی جمع نہیں کرایا، عدالت کو کیا معلوم بیت المال کیا کررہا ہے ،تمام حکومتیں ریلیف کی مد میں رقم خرچ کررہی ہیں لیکن کسی بھی عمل میں شفافیت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتی، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئر ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زکوٰۃ کا پیسے لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اور باہر دورے کروانے کے لیے نہیں ہیں، یہی حال بیت المال اور زکوٰۃ کے محکمے کے ساتھ ہے،بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے اور وہ کسی کو فنڈ نہیں دیتے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے، کیا زکوٰۃ کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے؟ کیا محکمہ زکوٰۃ کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں۔انہوں نے کہا کہ زکوٰۃ فنڈ کس کو مل رہا ہے یہ ایک معما ہے۔عدالت عظمیٰ نے زکوۃ اور بیت المال کے پیسوں سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے شرعی رائے طلب کرلی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا کسی اور صوبے کی حکومت مسئلہ شفافیت کا ہے، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن تفصیل نہیں دی گئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰۃ کے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے، لوگ منتیں مانتے ہیں تو وہاں چیزیں رکھ دیتے ہیں اور صدقے کے پیسے بھی وہاں جمع کرواتے ہیں،یہ صدقے کے پیسے آفیسروں کی تنخواہوں پر کیسے لگائے جا سکتے ہیں، جس مقصد کے لیے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہییں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مزارات کے پیسوں سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰۃ کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، زکوٰۃ فنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیدا ہو تو ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سیہون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی، مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ کے لیے ہوٹلوں کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا، تمام ہوٹلوں کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے 2پیناڈول کھائی اور وہ اسکرین سے بچ نکلا جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ اسی لیے اب 24 گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں، تفتان کے قرنطینہ میں رہنا بھی ڈراؤنا خواب تھا۔جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ قرنطینہ مراکز بنانے کے بجائے اسکول اور کالجوں کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے۔عدالت عظمیکے لارجر بینچ کے سامنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیش ہوئے اور کہا کہ سندھ میں 56 کروڑ 90 لاکھ روپے 94 ہزار سے زائد افراد کو دیے گئے اور تمام رقم زکوٰۃ فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ 56 کروڑ 90 لاکھ روپے کن افراد کو ادا کیے گئے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ زکوٰۃ انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہرسال دی جاتی ہے، سندھ میں فی کس 6 ہزار روپے زکوٰۃ دی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے، دوسرے مرحلے میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے اور بالآخر سندھ حکومت 8 ارب روپے تک پہنچ ہی جائے گی۔اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں، سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میڈیا پر سنا ہے کہ ایکسپائر اٹا اور چینی دی گئی جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راشن کی تقسیم کے لیے 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی؟انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8 ارب روپے کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کپڑے کی دکان کھولے کے بغیر درزی کی دکان کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملا جبکہ فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کر دی گئی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پر عمل نہیں ہو رہا، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایس او پیز پرعمل نہ کرنے والی تین فیکٹریوں کوبند کردیا گیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے ڈاکٹروں، طبی عملے اور سینٹری ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا اور کیس کی سماعت 2ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔