بلدیہ کراچی میں انتظامی افسر کو صوبائی حکام کی جانب سے سخت کارروائی کا خدشہ

596

کراچی (رپورٹ: محمدانور) بلدیہ عظمٰی کراچی کے انتظامی افسر کو کورونا وائرس کا خوف یا حکام کی جانب سے افسران کو دوہرے چارج دیے جانے پر کارروائی کا خدشہ پیدا ہوگیا کہ اچانک دو لاڈلے افسران سے ایک ایک اضافی چارج واپس لے لیے گئے۔

محکمہ ایچ آر ایم کے ذرائع کے مطابق سینیئر ڈائریکٹر ایچ آر ایم  جنہوں نے خود ڈائریکٹر فوڈ و کوالٹی کنٹرول ، سینئر ڈائریکٹر ویٹرنری اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن  کے اضافی عہدے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، اچانک ہی سینئر ڈائریکٹر لینڈ اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی سے سینئر ڈائریکٹر اسٹیٹ کا اضافی چارج اور عبدلقیوم خان سے سینیئر ڈائریکٹر انٹرپرائزز و انویسٹمنٹ پروموشن ( ای اینڈ آئی پی )  کا چارج واپس لے لیا ہے ۔

دلچسپ امر یہ کہ اس پوسٹ پر کسی دوسرے افسر کو تعینات کرنے کے بجائے اسی محکمے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کمال الدین کو سیئر ڈائریکٹر ای اینڈ آئی پی کا اضافی عہدہ دے دیا گیا۔

خیال رہے کہ سینئر ڈائریکٹر عمران قدیر کے انتقال کے فوری بعد مذکورہ پوسٹ کی اضافی زمے داری ، سینئر ڈائریکٹر لینڈ اینٹی انکروچمنٹ  بشیر صدیقی کو دے گئی تھی جو  خود پہلے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اینٹی انکروچمنٹ کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے بشیر صدیقی دراصل ایڈیشنل دائریکٹر تھے  انہیں سینئر ڈائریکٹر لینڈ اینٹی انکروچمنٹ کا اضافی چارج ان کی فرمائش اور  بہترین ” ہفتہ واری ” سروس فراہم کرنے کی یقین دہانی پر دیا گیا تھا۔

بعدازاں میئر وسیم اختر اور میٹروپولیٹن کمشنر بشیر صدیقی کی کارکردگی سے اس قدر مطمئیں ہوئے کہ انہوں نے ناصرف انہیں آوٹ اف ٹرن ترقی دے دی بلکہ انہیں باقاعدہ سینئر ڈائریکٹر کی اسامی پر بھی تعینات کردیا۔

خیال رہے کہ شہر میں تجاوزات ہٹانے کا سلسلہ گزشتہ تقریبا سات ماہ سے معطل ہے۔ کے ایم سی کے امور سے واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ کے بلدیہ عظمٰی کے امور میئر کے بجائے سیئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن جو اب اپنے آپ کو ڈائریکٹر جنرل کہا کرتے  ہیں کا افسران سے یہ کہنا ہوتا ہے کہ ”  میئر صاحب اور ایم سی صاحب کا  صاف کہنا ہے کہ  جسے جہاں لگنا ہو اسے لگادیا جائے وہ جو کرنا چاہے کرنے دو مگر  ” قائد اعظم ” سے محبت کا کھلا اظہار کرتا رہے جس سے اس کی محب وطنی اور محب ادارہ کا پتا چل سکے۔ اسی اصول کے تحت سینئر ڈسئریکٹر ای اینڈ آئی پی عبدالقیوم خان کو ہٹاکر انہیں سینئر ڈائریکٹر اسٹیٹ مقرر کردیا گیا۔

خیال رہے کہ میئر اور ایم سی کی یومیہ بنیادوں  پر ” سخت احتسابی کارروائیوں ” کی وجہ سے کے ایم سی سندھ کا منفرد ادارہ بن چکا ہے۔ مگر اس سے اس کی کارکردگی اور مالی بہتری کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔