کورونا ایک عالمگیر وبا کیوں؟

617

کورونا وائرس کو دنیا میں پھیلے ہوئے چار ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے مگر اس کا خوف ہے کہ وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ جس حساب سے اسے دنیا کے لیے خوف کی علامت بنادیا گیا ہے، اگر اعداد و شمار دیکھیں تو ایسی کوئی علامت کہیں پر بھی نظر نہیں آتی کہ اسے عالمگیر وبا تو کیا علاقائی وبا بھی قرار دیا جاسکے ۔ 13 اپریل کو یہ آرٹیکل لکھتے وقت اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 18 لاکھ 61 ہزار 670 ہے ۔ دنیا کی سوا سات ارب کی آبادی کا یہ 0.0256 فیصد ہے ۔ اگر دنیا بھرمیں 7 کروڑ 25 لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہوجائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی ایک فیصد آبادی اس بیماری سے متاثر ہوگئی ہے ، اس لیے اسے عالمی وبا قرار دیا جائے ۔ ابھی ہم مرنے والوں کی بات نہیں صرف متاثر آبادی کی بات کررہے ہیں ۔ اس وقت تک مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 14 ہزار 980 ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 0.001 فیصد ہے ۔ یہ اعداد وشمار تو آج کے ہیں مگر عالمی ادارہ صحت نے تو کورونا کو ایک ماہ پہلے ہی عالمی وبا قرار دے دیا تھا ، اس وقت یہ اعداد و شمار کہیں کم تھے ۔

سب سے پہلے اس بات کو دوبارہ سے سمجھتے ہیں کہ ایک عام شہری کورونا سے کیوں خوفزدہ ہے ۔ کورونا کی جو بھی حقیقت ہو ، یہ بات حرکات و سکنات سے سمجھادی گئی ہے کہ کورونا ایک ایسے مرض کا نام ہے جو کسی کو بھی ، کسی بھی وقت ، کسی بھی طرح سے لگ سکتا ہے ۔ اور اگر یہ کسی کو لگ گیا تو سمجھو اسے ملک الموت نے جکڑ لیا ہے ۔ جس کسی کو کورونا لگ گیا ہے ، نہ صرف اس سے بلکہ اس کے اہل خانہ کو بھی چھوت سمجھا جائے اور انہیں محلہ بدر کردیا جائے ۔ کورونا کے مریض کے صرف اہل خانہ ہی نہیں بلکہ اس کے محلے والوں ، جہاں پر وہ کام کرتا ہے وہاں پر دیگر کام کرنے والوں اور اس کے دوست و احباب کو بھی کم تر درجے کا اچھوت سمجھتے ہوئے ، فوری طور ان کا سماجی بائیکاٹ کردینا چاہیے ۔ یہ سب کچھ مین اسٹریم میڈیا اور دیگر ذرائع سے اس تواتر سے سمجھا دیا گیا ہے کہ آپ کتنے ہی منطقی اور سائنسی توجیحات پیش کردیں ، اعداد و شمار پیش کردیں مگر لوگ اسی درجے میں خوفزدہ ہیں ۔ جب کسی کے پاس جواب نہیں بچتا تو وہ یہی کہتا ہے کہ کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں مگر احتیاط پھر بھی بہتر ہے ۔

میں پھر سے پاکستان میں کورونا کے پہلے تشخیص ہونے والے مریض یحییٰ جعفری کی مثال پیش کرتا ہوں ۔ 22 سالہ یحییٰ جعفری ایران سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی پہنچا ۔ 26 فروری کو اسپتال میں داخل ہونے سے قبل اس نے ایک ہفتے سے زاید عرصہ اپنے بوڑھے والدین ، بہن بھائیوں کے ساتھ گزارا ۔ اس عرصے میں وہ کراچی یونیورسٹی میں اپنی کلاسیں بھی اٹینڈ کرتا رہا اور اپنے بے تکلف دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا بھی رہا ۔ محلے میں ، بازاروں میں بھی وہ آزادانہ گھومتا رہا ۔ ایران کی زیارات سے آنے کے بعد وہاں سے لائے گئے تبرکات بھی جاننے والوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرنے گیا ۔ اس پوری صورتحال کے بعد جب 26 فروری کو سانس کی تکلیف کو دکھانے آغا خان اسپتال گیا تو اعلان کیا گیا کہ اسے کورونا کا مرض ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مرض ایسے ہی پھیلتا ہے ، جیسا کہ کہا جارہا ہے تو یحییٰ جعفری کے پورے گھر ، رشتہ داروں ، محلے داروں ، دوستوں ، کراچی یونیورسٹی میں کم از کم اس کے ڈپارٹمنٹ میں کورونا وبا کی طرح پھیل جانا چاہیے تھا مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ان لوگوں میں سے کسی میں بھی کورونا کا ایک مریض دریافت نہیں ہوا ۔ کراچی کا لاک ڈاون ہونے سے قبل ایک ماہ تک کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں لوگ ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھ کر سفر کرتے رہے ، مگر کہیں کورونا نہیں پھیلا ۔ البتہ جیسے ہی لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا ، کورونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ۔ اب کراچی کی پوری کی پوری یونین کونسلوں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ اب لوگ اتنے محتاط ہیں کہ اگر کسی کے گھر دل کے مریض کو بھی لے جانے کے لیے ایمبولینس آجائے تو اس کی وڈیو بنالیتے ہیں اور آنا فانا وہ پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے مگر ان علاقوں میں سے کسی ایک علاقے کی ایک بھی ایسی وڈیو موجود نہیں ہے ۔ تو پھر یہ آسمانی مریض کہاں سے آرہے ہیں ؟

ابھی کل ہی 12 اپریل کی شب گھوٹکی میں ہندووں کی عبادت گاہ سائیں سچو ست رام کی درگاہ میں ہزاروں ہندو زائرین بلا کسی ماسک یا سماجی فاصلے و سینی ٹائزر وغیرہ کے موجود تھے ، اگر یہ وبا اسی طرح پھیل رہی ہے جس طرح کہ حکومت کہہ رہی ہے تو پھر تو پورے سندھ میں کم ازکم ہندو برادری کو اور ان کے آس پاس رہنے والوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آجانا چاہیے ۔ اس طرف ذرا نگاہ رکھیے ، پتا چل جائے گا کہ ان ہندو زائرین میں سے ایک بھی کورونا کا مریض نہیں نکلا ۔ ان سب باتوں سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ کورونا کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے ، اس طرح ہے نہیں ۔

برطانوی روزنامہ گارجین کے مطابق برطانوی حکومت نے کورونا کو انتہائی پھیلنے والی بیماریوں کی فہرست سے 19 مارچ کو ہی خارج کردیا ہے ۔ گارجین کی یہ خبر اس لنک میں https://www.gov.uk/guidance/high-consequence-infectious-diseases-hcid#definition-of-hcid
ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ تو پھر سے وہی ملین ڈالر کا سوال کہ آخر لوگوں میں یہ خوف کیوں پھیلا یا جارہا ہے ۔ اس سوال کا جواب بوجھتے ہیں آئندہ آرٹیکل میں ان شاءاللہ تعالیٰ ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com