مصر کے صدر سیسی نے 2013ء میں مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کرکے فوج کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ 2014ء میں انہوں نے انتخابات کرائے جس میں انہیں منتخب کرلیا گیا کیوں کہ ان کے خلاف کسی نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا، اکثریت کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ چار چار سال دو دفعہ اقتدار میں رہ کر 2022ء میں سیسی کو اقتدار چھوڑنا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی اپریل 2019ء میں مصر کی پارلیمنٹ نے آئین میں ترامیم منظور کرلیں جن کے مطابق صدر سیسی 2030ء تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ یہ ترامیم صدر سیسی کو عدلیہ پر مزید اختیارات دیں گی اور فوج کا سیاست میں کردار مزید یقینی بنائیں گی۔ یوں بھی سیسی کے صدر بننے کے بعد سے فوج کی اقتصادی اور شہری مداخلت وسیع ہوگئی تھی۔ بڑے بڑے انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ کا انتظام فوج کے پاس ہے۔ حکومت کے اہم عہدوں پر جرنیلوں کے قبضے ہیں۔ نئی آئینی ترمیم ملک میں مسلح افواج کی ’’سپریم کونسل‘‘ کے کردار کو مزید یقینی بناتی ہے اور فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو وسیع کرتی ہے۔ 2011ء سے لے کر اب تک ہزاروں سویلین افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاچکے ہیں۔ جن میں پھانسی اور عمر قید کی سزا ایک معمول کی بات ہے۔ ان ہی مقدمات کے دوران محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر کو شہید کردیا گیا۔ یہ ایک عدالتی قتل تھا۔ حکومت ان سے اتنی خوفزدہ تھی کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پنجروں میں بند کرکے عدالت لایا جاتا۔
ستمبر 2019ء میں اخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع سمیت تقریباً 28 رہنمائوں کو عمرقید کی سزائیں دی گئیں۔ اس سے قبل اخوان کے سابق مرشد عام محمد عاکف جیل میں قید کی حالت میں وفات پاگئے۔ ان کی نماز جنازہ کی اجازت نہیں دی گئی صرف چند افراد کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ اخوان المسلمون کو مصر میں قید و بند اور پھانسی کی سزائیں دراصل اسلام سے گہری وابستگی اور اس کے اصولوں کی ترویج کی جدوجہد کے باعث ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں عرصے سے دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں اسلام کے جھنڈے کو لے کر لوگ کھڑے ہوتے ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں برطانوی رکن پارلیمنٹ نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ دلانے کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے، حالاں کہ دہشت گردی کیا ہوتی ہے آج برباد مسلم ممالک اس کی عملی تصویر ہیں۔ عرب بہار کی اصطلاح ایک امریکی محقق نے ایجاد کی تھی لیکن اس بہار نے صرف بارود اور خون کی بُو پھیلائی۔ عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگا کر اُسے تباہ و برباد کردیا گیا۔ شام، یمن، لیبیا کو جنگوں کا ایندھن بنا ڈالا گیا۔ مصر صرف ایک سال جمہوری صدر مرسی کے تحت رہ کر دوبارہ فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ مغربی قوتوں نے شام کے لیے بشارالاسد ہی کو پسند کرلیا۔ برطانیہ اور امریکا کی بمباری دولت اسلامیہ کا طوفان عرب بہار کے خوفناک نتائج ہیں۔ ان خوفناک حقیقی نتائج کے بعد اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کرانے کے لیے مغرب بضد ہے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ سے پہلے امریکی کانگریس نے 2018ء جولائی میں اخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے سے متعلق بل پر بحث کی تھی۔ کانگریس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے چیئرمین ’’رون ڈی سانٹیز‘‘ نے اخوان المسلمون کے خلاف بولتے ہوئے کہا کہ محمد قطب اور اُن کی تصنیفات اخوان کا مقبول لٹریچر ہے۔ جو نہ صرف اخوان، حماس بلکہ اس جیسی دوسری تحریکوں کے لیے رہنمائی کا کام انجام دیتا ہے۔ آئیے یہاں ہمیں کچھ باتیں محمد قطب کے بارے میں بھی جان لینی چاہئیں کہ محمد قطب جن کو پھانسی پر چڑھائے نصف صدی ہوچکنے کے باوجود آج برطانیہ اور امریکا کی پارلیمنٹ میں اُن کا اور ان کے لٹریچر کا اتنی خوف زدہ انداز میں ذکر کیوں ہورہا ہے۔ محمد قطب کو 29 اگست 1966ء کی صبح مصری حکومت نے ان کے دو رفقا محمد یوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل کے ساتھ تختہ دار پر چڑھایا تھا۔ اس سے قبل دس سال تک انہیں جیل میں سخت تکالیف اور اذیتیں دی گئیں۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی محمد قطب کو بھی اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ ان کے انتقال کی افواہ مشہور ہوگئی۔ بعد میں جس نے اُن کو دیکھا بتایا کہ ان کا پورا جسم داغ داغ تھا۔ ان کی دو بہنوں امینہ اور حمیدہ کو بھی دس سال قید کی سزا دی گئی۔ 25 سالہ بھانجے رفعت بکرالشافعی جو انجینئرنگ کالج سے دو سال قبل ہی فارغ ہوئے تھے، گرفتار کرکے اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ وہ اپنے ماموں کے خلاف گواہی کے لیے آمادہ ہوجائے، یہاں تک کہ وہ جیل ہی میں انتقال کرگیا۔ محمد قطب پر ابتدا میں جو الزام لگایا گیا تھا وہ اُن کی کتاب ’’معالم فی الطریق‘‘ (جس کا اردو ترجمہ جادہ و منزل کے نام سے پاکستان میں شائع ہوا) کو قرار دیا گیا تھا۔ سرکاری موقف تھا کہ اس کتاب میں مصری معاشرے کو جاہلی معاشرہ قرار دے کر تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
عدالت میں سید قطب کو ایک لفظ اپنی صفائی میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اخوان پر تخریبی اور دہشت پسندانہ کارروائیوں کا الزام لگایا گیا لیکن کوئی ایک ثبوت نہ دیا گیا کہ کبھی اخوان کے ہاتھوں کوئی ایک مصری مارا گیا ہو یا زخمی ہو یا اس کا گھر بار لوٹا گیا ہو۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے یقینا اس کتاب میں مسلمانوں کو اس بات پر اُبھارا گیا کہ اسلامی نظام قائم کرنے اور موجودہ منافقانہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کوشش کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا اور وہ تھا جمہوری اور پُرامن طریقے سے تبلیغ افکار اور اشاعت دعوت۔ اس کے بعد سیرت کی تعمیر اور تبدیلی نظام۔ انہوں نے کسی خفیہ تحریک کی دعوت نہیں دی۔ تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ نہیں کی نہ بمباری اور جھوٹے الزام لگا کر تباہی پھیلائی، نہ ہی یہ نظریہ پیش کیا کہ چند افراد کو کرسی اقتدار سے ہٹا کر جاہلی نظام کی جگہ اسلامی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی نظام کے لیے تعلیم و تربیت کے ذریعے ایک نسل اُٹھانی ہوگی جو فکر و عقیدہ اور سیرت و کردار کے لحاظ سے صحیح معنوں میں مسلمان ہو اور اپنی اجتماعی زندگی کو اللہ اور صرف اللہ کی مرضی کے مطابق منظم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہو۔ اخوان نہ پہلے کسی دہشت پسندانہ کارروائی کرنے میں ملوث تھے نہ آج ہیں۔ لیکن تسلسل کے ساتھ پچھلے 60 برس میں انہیں حکومتی قید و بند، پھانسیوں اور غیظ و غضب کا سامنا ہے، صرف مصر ہی نہیں دنیا میں ہر مسلم ملک میں مغرب زدہ مسلمانوں کا ایک طبقہ مغرب کی پشت پناہی کے ساتھ اسلامی طرزِ زندگی اور سلامی قوانین کے نفاذ کا شدت سے مخالف ہے اور اس کو روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنا جائز سمجھتا ہے۔ آج اگر امریکی اور برطانوی کانگریس اور اس کے رکن اخوان المسلمون کے انتہائی مخالف ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
مصر میں 1954ء کے بعد سے آج تک ظلم و تشدد کا ہر حربہ اختیار کیا گیا، مگر اس کے باوجود اخوان کی دعوت پھیلتی ہی چلی گئی اور احیائے اسلام کا جذبہ قوی سے قوی تر ہوتا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں اسلام کی دعوت جب ایک بار موثر طریقہ پر پیش کردی جائے اور وہ صرف زبانی نہ ہو عملی طور پر ہو۔ دعوت دینے والا اسلام کو صرف زندگی کے نجی دائروں میں محدود رکھنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ پوری زندگی اور اس کے دائروں پر نافذ کرنے کا عزمِ صمیم رکھتا ہو، تو پھر اُس کے پھیلنے کا انحصار کسی مخصوص جماعت یا اُس کے کارکنوں پر نہیں رہ جاتا۔ مصر میں اب اسلام کی دعوت اخوان المسلمون اس کے رہنمائوں حسن البنا، حسن الہضیبی، عبدالقادر عودہ اور سید قطب کی سرگرمیوں کی محتاج نہیں۔ ناصر سے لے کر حسنی مبارک اور اب موجودہ فرعونِ مصر سیسی غلبہ اسلام کی تحریک کو ختم نہیں کرسکتے نہ اِن کے پاس ابتدائی فرعون مصر کی طرح کی طاقت ہے جب وہ اللہ کے دین کو غالب آنے سے نہ روک سکا تو یہ کمزور و ناتواں غیر کی طاقت پر شیر بننے والے بھلا کیا کرسکتے ہیں۔ اسلام کے لیے جینے اور مرنے والے زندہ تھے، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے اور غازی یا شہید کے مقام تک پہنچنے کے لیے آخری لمحے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔