ایک لنگڑے مچھر کی کورونا وائرس سے ملاقات

1565

پوری دنیا کی سیر کرنے والے کورونا وائرس کی ملاقات ایک لنگڑے مچھر سے ہوگئی ابتدائی سلام دعا کے بعد ایک دوسرے کے حال و احوال کی تفصیل معلوم کی اور یہ ملاقات شاید مصر کی فضائوں میں ہوئی، کورونا وائرس نے لنگڑے مچھر سے پوچھا ذرا مجھے اس واقعے کی تفصیل تو بتائو کہ تمہیں نمرود کے دماغ کے اندر ناک کے ذریعے جانے کا حکم کیوں ملا اور کیسے گئے اس لیے کہ آج کل مجھے بھی آج کے نمرودوں کے اندر جانے کا حکم ملا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ سب ہی لوگ جو میرا شکار ہورہے ہیں وہ سرکش اور متکبر ہوں جب کوئی وباء پھیلتی ہے تو کچھ اللہ کے نیک بندوں کو بھی شہادت نصیب ہوتی ہے، لنگڑے مچھر نے کہا کہ جب مجھے نمرود کی ناک کے ذریعے داخل ہو کر اس کے دماغ تک جانے کا حکم ملا تو مجھے تو اطاعت کرنا تھی یہ میرا مقام نہیں تھا کہ میں یہ پوچھوں کہ یہ حکم مجھے کیوں دیا جارہا ہے ہاں البتہ یہ ضرور سوچا کہ گھپ اندھیرے میں گرمی کی وجہ سے میں مر نہ جائوں پھر ایسا لگا کہ جیسے کوئی آواز آئی ہو کہ نہیں تم دونوں ہی زندہ رہو گے اور اگر مر بھی گئے تو تاریخ کی کتابوں میں تو زندہ رہو گے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اندھیرے اور گرمی ہی میں تو ہمارے مزے آتے ہیں کہ آج بھی جس کمرے میں گرمی اور اندھیرا ہو اور وہاں پنکھا بھی نہ چل رہا ہو تو جو فرد وہاں لیٹا ہوا ہو تو وہ ہمارے لیے ایک ایسے دستر خوان کی طرح ہوتا ہے کہ جہاں سے چاہے منہ مار لیں لیکن پھر بھی ہم پہلے اپنی خواتین کو بھیجتے ہیں وہ فرد کا خون چکھ کر آئیں اور ہمیں رپورٹ دیں کہ آیا اس فرد خون چوسا جا سکتا ہے یا نہیں بالکل اسی طرح جس طرح انسانوں میں جو خواتین گھر میں کھانا پکاتی ہیں تو اس دوران وہ اپنی ہتھیلی پر تھوڑا سے سالن ڈال کر چکھتی ہیں اور نمک مرچ کا اندازہ لگاتی ہیں۔
جہاں تک کیوں کا سوال ہے تو در اصل جن قوموں نے اپنے انبیاء کو جھٹلایا وہ سب تکبر کا شکار تھیں قوم عاد کے بارے میں آیا ہے کہ وہ تکبر کا شکار ہو گئے تھے۔ نمرود بھی تکبر کا شکار تھا۔ جب سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے اللہ کا پیغام پہنچایا نمرود نے ابراہیمؑ سے اللہ کے بارے میں پوچھا حالانکہ وہ سب کچھ جانتا تھا لیکن پھر بھی سیدنا ابراہیمؑ نے کہا میرا اللہ وہ ہے جس نے اس کائنات کی تخلیق کی اور یہ کہ زندگی اور موت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نمرود نے کہا یہ تو کوئی خاص بات نہیں زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں بھی ہے اور میں ابھی ثبوت پیش کرتا ہوں اس نے قید خانے سے دو قیدیوں کو بلوایا اور اس نے ابراہیمؑ سے کہا اس میں سے ایک قیدی کی آج رہائی ہونے والی ہے اور ایک قیدی کو آج سزائے موت دی جانے والی ہے نمرود نے سزائے موت والے قیدی کو رہا کردیا اور جس قیدی کی رہائی ہونے والی تھی اُسے قتل کردیا اور پھر سیدنا ابرہیمؑ سے کہا کہ دیکھو زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں بھی ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود سے کہا کہ میرا ربّ سورج کو روز مشرق سے نکالتا ہے تو کل اسی سورج کو مغرب سے نکال کر بتادے اب وہ سٹپٹا گیا۔ مچھر نے کہا نمرود کے دماغ میں تکبر بھرا ہوا تھا مجھے اسی دماغ میں جانے کا حکم ملا دماغ میں پہنچ کر جب میں تھوڑا سا کلبلاتا تو نمرود بے چین ہوجاتا اور اپنے غلاموں سے جو اس کے چاروں طرف جوتے لیے کھڑے ہوتے اپنے سر پر جوتے لگواتا جب دھمک کی آواز آتی تو میں دبک کر ایک کنارے بیٹھ جاتا اس وقت نمرود کو کچھ سکون ملتا لیکن یہ سکون چند لمحوں ہی کے لیے ہوتا۔
کورونا وائرس نے لنگڑے مچھر سے کہا کہ آج پوری دنیا متکبروں سے بھر گئی اللہ میاں اگر میرے بجائے تمہاری ڈیوٹی لگا دیتے کہ تم ان متکبروں کے دماغ میں گھس جائو تاکہ ان کے سر پر بھی جوتے پڑتے رہیں۔ لنگڑے مچھر نے کہا کہ آج کا انسان سائنس میں اتنی ترقی کرگیا ہے کہ اگر میں کسی کے دماغ میں چلا جاتا تو فوراً دماغ کا آپریشن کرکے مجھے نکال لیا جاتا اور پھر مجھے مارنے کے بجائے کسی لیبارٹری میں رکھتے اور پھر مجھ پر ریسرچ کرتے بلکہ اب تو آپریشن بھی نہیں کیا جاتا بلکہ سوراخ کرکے کمپیو ٹرائزڈ لیپ کولی کرتے جس میں مریض کو بے ہوش بھی نہیں کیا جاتا اور وہ ٹی وی اسکرین پر ہی میری حرکات و سکنات کا جائزہ لے کر یا تو مجھے وہیں ما ردیتے یا زندہ نکال لیتے۔ آج کی سائنسی ترقی کے پیش نظر اللہ میاں نے تمہاری ڈیوٹی لگائی ہے کہ تم ایک بیجان طفیلی ذرہ ہو جو ایک انتہائی طاقتور خورد بین سے دیکھے جاسکتے ہو تمہاری حیات کسی جاندار خلیے کی مرہون منت ہوتی ہے جو اس کے جسم میں انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔ تم ایسے وائرس ہو جو ازخود زندہ نہیں رہ سکتے بلکہ تمہیں کسی دوسرے جاندار کے خلیے کے ڈی این اے یا آر این اے کی ضرورت پڑتی ہے اسی لیے تمہیں لازمی طفیلی اندرونی خلیہ بھی کہا جاتا ہے۔
جہاں تک متکبروں کو جوتے پڑنے کا سوال ہے تو یہ جوتے تو پڑتے ہی رہتے ہیں کبھی وقت کے متکبروں کو یہ جوتے ویت نام میں پڑتے ہیں کبھی کمبوڈیا میں اور حال کی تاریخ میں یہ جوتے افغانستان میں پڑتے ہوئے دیکھے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ نے تم جیسے بے جان ذرے کے ذریعے پوری سانٹیفک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے تمہارے علاج کے لیے ویکسین بنانے میں بھی ایک سے ڈیرھ سال لگیں گے جب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہوں گے۔ اب تو گرجا گھروں میں بھی اذانیں دی جارہی ہیں۔ امریکا میں ایک اعلیٰ ترین اجلاس کا آغاز بھی تلاوت کلام پاک سے ہوتا ہے تم چاہتے ہو کہ جیسے جوتے نمرود کو پڑتے تھے ویسے ہی آج کے نمرودوں کو بھی پڑیں تو تمہیں یاد نہیں کہ اب سے کچھ برس پہلے عراق میں وقت کے نمرود کو ایک صحافی نے جوتا کھینچ کر مارا تھا جس کا پوری دنیا میں بڑا شور مچا تھا۔ تمہارے سامنے تو ایٹم بم بھی بے اثر ہو رہ گئے ہیں۔