(آخری حصہ)
کورونا وائرس کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا میں جو کچھ اور جس طرح آیا اسے لاس اینجلس ٹائمز نے over drive جیسے نرم لفظ سے تعبیر کیا۔ مین اسٹریم میڈیا پر تو اس کے بارے میں حقائق بیان کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر متبادل سماجی میڈیا پر بھی اس کے بارے میں حقائق پیش کرنے سے روک دیا گیا اور اس قسم کے مواد کو انسٹا گرام، یو ٹیوب، ٹوئٹر، فیس بک سمیت ہر جگہ سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا۔ اس کے لیے خاص طور پر سنسرز لگائے گئے۔ فاکس بزنس نیٹ ورک کی اینکر پیٹریشیا این ریگن جو عمومی طور پر ٹرش ریگن کے نام سے معروف ہیں، کو فاکس بزنس نیٹ ورک کی انتظامیہ نے جبری چھٹیوں پر اس وقت بھیج دیا، جب انہوں نے اپنے ایک پروگرام میں کورونا کی وبا کو hoax (جھانسا) قرار دیا۔
تاہم اب بھی کئی ایسی وڈیو موجود ہیں جن میں متبادل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے کورونا کے بارے میں دیے گئے سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق کرنے اور حقائق کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ ایسی ہی ایک وڈیو ایک یوٹیوب چینل crowdsourcethetruth کے میزبان John Cullens کی ہے۔ جان نیویارک کی سڑکوں پر اس اسپتال کو تلاش کرتا رہا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس میں کورونا کے ایک ہزار مریض رکھے گئے ہیں، مگر اسے وہ اسپتال کہیں نہیں مل سکا۔ جان نے یہ وڈیو فیس بک پر لائیو اسٹریم کی تھی۔ سب سے زیادہ زبردست گواہی بی بی سی کے سابق اسپورٹس براڈکاسٹر David Vaughan Icke نے دی ہے۔ ڈیوڈ کی وڈیو اس لنک پر
https://www.davidicke.com/
article/566782/billy-six-deckt-
corona-schauspiel-auf ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ یہ وڈیو کلپ کوئی 50 منٹ طویل ہے۔ اس میں ڈیوڈ جرمنی میں ان تمام اسپتالوں کا رخ کرتا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں پر کورونا کے متاثر مریض رکھے گئے ہیں۔ اسے کہیں پر بھی وبائی یا ہنگامی صورتحال نظر نہیں آتی۔ اسی طرح وہ وڈیو میں بنیادی سوال کرتا ہے کہ جتنے مریضوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اٹلی یا جرمنی میں روز کورونا کی وجہ سے مررہے ہیں، اس سے زیادہ تعداد تو روزانہ ویسے ہی ان دونوں ممالک میں مرنے والوں کی ہے۔ وہ جرمنی میں یومیہ مرنے والوں کی تعداد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ ڈیوڈ نے ایک ڈاکٹر کا اسکائپ پر طویل انٹرویو بھی لیا ہے جو یہ بتارہا ہے کہ جو کچھ بتایا جارہا ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس وقت ٹوئٹر پر FilmYourHospital کے نام سے ایک ٹرینڈ خاصا مقبول ہورہا ہے جس میں لوگ اپنے علاقے کے اسپتالوں کے کلپ ٹوئٹ کررہے ہیں۔ اس ٹرینڈ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ لاس اینجلس، ڈینور سمیت کئی امریکی ریاستوں کے اسپتالوں میں وہ صورتحال نہیں ہے جس کا ذکر پریسٹی ٹیوٹس کررہے ہیں۔ اس میں دنیا بھر کے کلپ موجود ہیں جن میں اسے بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ صورتحال نہیں ہے جو میڈیا بتارہا ہے۔ وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ میڈیا جھوٹ بول رہا ہے اور جھوٹ دکھا رہا ہے۔ پریسٹی ٹیوشن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سی بی ایس ٹیلی وژن نے امریکا میں صورتحال کو ابتر دکھانے کے لیے اٹلی کے کلپ امریکا کے نام سے چلا دیے جس کا انکشاف بعد میں ہوا۔
جناب عالی، اگر آپ ایک عالمگیر شیطانی ریاست کے تسلط میں آنے سے بچنا چاہتے ہیں تو دوسروں کے پھیلائے ہوئے خوف سے باہر نکلیں، خود سوچیں اور خود نتیجہ نکالیں۔ میں سارے لنک اسی لیے اپنے مضامین میں ڈالتا ہوں اور اس مضمون میں بھی ڈالے ہیں کہ آپ خود انہیں دیکھیں۔ چند قارئین میرے مضامین پڑھنے کے بعد ضمنی سوالات کرتے ہیں۔ آپ میرے مضامین میں دیے گئے keywords مثلاً ID2020، RFID، Event 201 کو ہی سرچ کرلیں تو بہت کچھ اندازہ ہوجائے گا۔
عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں یومیہ مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس لحاظ سے گزشتہ بیس دنوں میں پاکستان میں ایک لاکھ کے قریب دار فانی کو کوچ کرچکے ہیں۔ ان بیس دنوں میں کورونا سے پورے ملک میں صرف بیس افراد کی ہلاکت ہوئی ہے مگر اس کے خوف کی وجہ سے جو نقصان ملک اور قوم کو اٹھانا پڑا ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ کورونا کا خوف پھیلانے کے پس پشت عزائم کو سمجھیں کہ یہ انسان کو غلام بنانے کے عمل کا آغاز ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔