لاہور(نمائندہ جسارت)چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے تفتان کی سرحد پر حکومت کی جانب سے بروقت انتظامات نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ایران سمیت بیرون ملک جانے اور آنے والے مسافروں کی تمام تفصیلات طلب کر لیں۔لاہور ہائی کورٹ میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے متفرق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔عدالت عالیہ کے چیف جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں لارجر بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی جس میں جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید ،جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی بھی شامل ہیں۔سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان، قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکریٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ نبیل اعوان اور سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیپٹن ریٹائرڈ عثمان پیش ہوئے۔چیف جسٹس قاسم خان نے اس موقع پر وفاقی حکومت کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ کتنے پاکستانی ایران میں ہیں جو وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ تقریبا 6 ہزار پاکستانی واپس آنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس قاسم خان نے بروقت انتظامات نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتان سے جب لوگ آئے تھے ان کو چیک کیا جاتا تو یہ حالات نہ ہوتے اور ملک مشکلات سے دوچار نہیں ہوتا۔جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ تفتان سے لوگ نکل کر سرگودھا سمیت دیگر شہروں میں پھیل گئے جس سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل کو کہا کہ ہمیں مکمل ڈیٹا چاہیے کہ کتنے پاکستانی ایران سے واپس آنا چاہتے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم لوگوں کا علاج کررہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے علاج کا نہیں پوچھا، آپ پہلے سے متعلقہ صوبائی حکومتوں کو آگاہ کرتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔عدالت نے اس موقع پر استفسار کیا کہ اسلام آباد میں جو اسپیشل فلائٹ آئی ہے کیا اس میں موجود مسافروں کو چیک کیا گیا؟وکیل نے کہا کہ انٹرنیشنل فلائٹ آپریشن معطل ہے جس پر عدالت نے دوبارہ استفسار کیا کہ جو مسافر کل رات اسپیشل فلائٹ کے ذریعے پاکستان لائے گئے وہ کس پالیسی کے تحت لائے گئے؟چیف جسٹس نے سیکریٹری پرائمری ہیلتھ سے استفسار کیا کہ ہم نے ہر ضلع میں کورونا ٹیسٹ کی لیب بنانے کا کہا تھا جس پر سیکریٹری پرائمری ہیلتھ نے کہا کہ کابینہ کی میٹنگ میں اس حوالے سے فیصلہ ہوگا۔عدالت نے اس دوران جیل افسر سے پوچھا کہ آپ کے پاس خواتین قیدی کتنی تعداد میں ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 243 خواتین قیدی ہیں، مجموعی 649 جیلوں میں قید ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ 42 خواتین ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کیمپ جیل میں ایک قیدی کو کورونا وائرس ہے اور عابد نامی یہ شخص ہیروئین اسمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔جسٹس عائشہ اے ملک نے دریافت کیا کہ اس شخص کو کہاں رکھا ہے جس پر جیل افسر نے جواب دیا کہ ہم نے اسے کل رات سے آئسولیشن میں رکھ لیا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے مزید استفسار کیا کہ وہ اتنے عرصے میں کتنے لوگوں کو ملا، آپ نے انہیں چیک کیا جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہم فوری طور پر جیل میں 100 بیڈ کا ہسپتال بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سماعت کے اختتام پر وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ کتنے لوگ ایران گئے اور کتنے واپس آگئے ان سب کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔عدالت نے مزید تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بتائے کہ یورپ میں مقیم کتنے پاکستانی وزٹ پر گئے اور واپس آنا چاہتے ہیں جبکہ یہ بھی بتایا جائے کہ وفاق پنجاب حکومت کو کتنا بجٹ دے رہا ہے۔چیف جسٹس قاسم علی خان نے مزید پوچھا کہ حکومت یہ بھی بتائے کہ ڈیلی ویجز والوں کو راشن دینے کے لیے حکومت نے کیا حکمت عملی بنائی؟ اگر زکوٰۃ یکم رمضان کے بجائے حکومت اب وصول کرے تو اس سے متعلق بھی وضاحت دی جائے۔عدالت نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ گلی گلی بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں، لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں۔جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ حکومت کورونا وائرس کے حوالے سے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ علاقوں کے بزرگوں کی مدد لیں۔دوران سماعت ایک درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ پرائیویٹ لیبارٹریز کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے 8 ہزار روپے لے رہی ہیں۔چیف جسٹس نے حکومتی نمائندوں کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نجی لیب سے بات کریں، اس وقت ہم ہنگامی صورتحال میں ہیں، اس ٹیسٹ کی قیمت کم کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک ایمرجنسی میں ہے، اداروں کو کام کرنے دیں، یہ نہ ہو کے ادارے سارا دن عدالتوں میں ہی بیٹھیں۔عدالت نے وفاقی حکومت سے تمام تر تفصیلات طلب کرتے ہوئے کارروائی جمعہ کے روز تک ملتوی کردی۔