کراچی پولیس میں نئے پرموشن لیٹرزلاکھوں روپے رشوت کے عوض جاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

1033

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ پولیس میں بھرتیوں کے دوران بڑے پیمانے پر ہونیوالے کرپشن کے سابقہ کیس معزز عدالتوں میں تاحال زیر سماعت تھے کہ حالیہ سندھ سرکار کی جانب سے کراچی پولیس میں نئے پرموشینز لیٹرز تقسیم کے دوران میرٹ کی دھجیاں آڑا دیں ، پرموشن لیٹرزلاکھوں روپے رشوت کے عوض جاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔

ذرائع کے مطابق اسسٹنٹ سب انسپکٹر و سب انسپکٹر پولیس کے آفر لیٹر کے لئے 9 لاکھ روپے سے 18 لاکھ روپے تک رشوت لی گئی ہے، ہیڈ کانسٹیبل کے رینک سے اگلے عہدے پر میرٹ کی بنیاد پر پرموشن کے منظر پولیس اہلکار مایوسی کا شکار ہوگئے ، جبکہ بھاری نذرانے کے باعث ان فیٹ و ان کولیفائیڈ اہلکاروں کو پرموشنوں سے نوازگیا ،جبکہ جعل سازی کے زریعہ آفر لیٹر حاصل کر نیوالے اہلکاروں کے خلاف آئی جی سندھ اسٹیبلشمنٹ برانچ کو درخواستیں بھی موصول ہوچکی ہیں ،شکایات ملنے پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 2017 کے دوران پولیس بھرتیوں میں میگا کرپشن کا کیس احتساب عدالت میں سندھ پولیس میں سب سے بڑامیگا کرپشن سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہوئی تھی ، جس میں سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی سمیت تمام ملزمان احتساب عدالت میں پیش بھی ہوئے تھے، مذکورہ اسکینڈل میں سندھ پولیس میں میگا کرپشن کیس ریفرنس میں ملزمان پر 881 غیرقانونی بھرتیوں کا الزام تھا، بھرتیاں ایس آر پی حیدرآباد کے لیے کی گئی تھیں، نیب کے مطابق جعلی بھرتیوں کے ذریعے50 کروڑ 46 لاکھ 61 ہزار 664 روپے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا تھا ،میگا کرپشن کے میں ملوث پائی گئے پولیس افسران تاحال جیل میں ہیں ،

دوسرا کیس 2018 میں سامنے آیا تھا جس میں سندھ پولیس میں خلاف ضابطہ بھرتیوں اور بدعنوانی کا انکشاف ہوا تھا، بھرتی کیلئے اہلکاروں سے رشوت وصول کی گئی تھی ، آٹھ پی ایس پی افسران کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا ،ذرائع کے مطابق سندھ پولیس میں 8 پی ایس پی افسران کیخلاف تحقیقات شروع ہوئی تھی، جن میں ایس ایس پی پیر محمد شاہ، ایس پی فدا حسین شاہ، ایس ایس پی سیداعتزاز، سابق ایس پی سی ٹی ڈی جیند شیخ، ایس پی امداد علی شاہ، خالد مصطفی، ظفر اقبال ملک اور عمر فاروق سلامت شامل تھے، مذکورہ افسران پر جعلی بھرتیوں اور اہلکاروں سے رشوٹ بٹورنے کا الزام تھا، تحقیقات کیلئے 220 افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کرائے گئے تھے،

ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران کے خلاف 50 فیصد تک تحقیقات مکمل ہو چکی تھی ، تحقیقات اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے احکامات پر ڈی آئی جی موٹر وے محمد سلیم کر رہے تھے،ذرائع کا کہنا ہے مذکورہ دونوں تحقیقات سندھ سرکار کی دباو کا شکار ہونے پر پولیس کے اعلی عہدوں پر فائض افسران کو کلین چیٹ سے نواز دیا گیا ، جبکہ چند روز قبل سائین سرکار کی جانب سے کراچی پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹرز و سب انسپکٹرز میں آفر لیٹر تقسیم کئے گئے، جن میں بڑے پیمانے پر کرپشن سامنے آئی ہے ،

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی پولیس میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل کے عہدے سے اگلے عہدے پر ترقی کے خواہشمند اہلکارو ں میں شدید بیچینی کا شکار ہوچکے ہیں ، جبکہ سائین سرکار نے میرٹ کی دھجیاں آڑا دیں ، دستیاب معلومات کے مطابق بھاری رشوت کے عیوض ان اہلکاروں کا نام بھی آئی ایس آئیز اور سب انسپکٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس کے خلاف بھتہ خوری ، منظم منشیات کے نیٹ ورک سیمت معتدد جرائم کی پشت پنائی کے حوالے سے محکمانہ انکوائریاں تاحال چل رہی ہیں ،

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار اویس احمد بقل نمبر 34883 جو کہ اس وقت ضلع ملیر کے تھانے ملیر کینٹ تھانے کے شبعہ تفتیش میں ڈیوٹی دے رہا ہے ، جس کے خلاف شرافی گوٹھ تھانے میں انٹیلی جنس ڈیوٹی کے دوران منشیات فروشوں ، اسٹریٹ کرئمنل گروہ اور سرکاری ہائیڈرنٹ سے ماہانہ بھتہ وصولی کے حوالے سے ایس ایس پی سید علی رضا کے پاس محکمانہ انکوائری بھی چل رہی ہے ،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس اہلکار اویس احمد نے سندھ پبلک سروس میں امتحان دینے کے لئے اپنے کزن امجد کو آبائی علاقے ہری پور سے بلوایا جس نے ٹیسٹ دیا اور جعل سازی سے لسٹ میں رول نمبر 12434 و میرٹ نمبر 112 حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ،

ذرائع کا کہنا ہے مذکور اہلکار نے امتحان پاس کرانے کے لئے اپنے کزن امجدکو بائی ائیر کراچی بلایا تھا ، اور امجد نے ایف آئی اے اسلام آباد میں بھرتی کے لئے اپنے دستاوزات جمع کرا رکھے ہیں،اس ہی طرح پولیس اہلکار فہیم شاہ بقل نمبر 46747 نے 12 لاکھ روپے رشوت کے عیوض مذکورہ فہرست میں اپنا نام 54 نمبر میں شامل کروایا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس اہلکار فہم شاہ تعلیم عافتہ نہیں ہے جس نے پولیس میں بھرتی کے دوران 8 لاکھ روپے بطور رشوت ادا کی تھی ، اور حالیہ سندھ پبلک سروس کا امتحان پاس کرانے کے لئے 12 لاکھ روپے ادا کئے ہیں،

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اہلکار فہیم شاہ اور اویس احمد کی انکوائری کی جائے یا ایس پی ایس کے امتحان کے لئے طلب کیا جائے تو تمام حقائق سے پڑدا اٹھ جائیگا ،ذرائع نے بتایا ہے کہ پولیس اہلکار ارتضیٰ علی بقل نمبر 41425 جس کی ایک ٹانگ کا آپریشن ہوچکا ہے جوکہ ایک کلو میٹر کا فاصلہ بھی طے نہیں کرسکتا ہے ، اور جب پولیس میں بھرتی کے وقت فیزیکل و میڈیکل ٹسٹ اور دوڑ پاس کرانے کے لئے 3 لاکھ روپے رشوت ادا کی اور ٹریننگ سینٹر میں ٹریننگ سے بچنے کے لئے 4 لاکھ روپے رشوت ادا کی تھی،

ذرائع کا کہنا ہے لوئیر کورس میں نام آتا ہے تو بھاری نذرانے پیش کر کے کورس میں شامل نہیں ہوتا تھا ، حالیہ پرموشن میں پولیس اہلکار ارتضیٰ علی 10 لاکھ روپے رشوت ادا کرتے ہوئے فہرست میں میرٹ نمبر45 پر نام درج کروالیا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکار اس وقت ایس ایس پی ملیر آفس میں تعینات بتایا جاتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کراچی پولیس میں پرموشنوں کے دوران میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے ، جبکہ اس حوالے سے آئی جی سندھ آفس اسٹبلشمنٹ برانچ کو دخواستیں بھی ارسال کی گئی ہیں ، جن پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔