سرکلر ریلوے:مہلت نہیں دینگے ،چیف جسٹس اورنج اور گرین لائن سمیت بہت کچھ ختم کرنا پڑے گا ،سندھ حکومت

238

کراچی(نمائندہ جسارت)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ 1995ء والی کراچی سرکلر ریلوے 6ماہ میں بحال کریں، مزید مہلت نہیں ملے گی، سندھ حکومت تجاوزات ہٹائے اور راستہ بنائے جب کہ سندھ حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر 1995ء کی سرکلر ریلوے بحال کی تو بہت کچھ ختم کرنا ہوگا،گرین لائن، اورنج لائن سب منصوبے ختم کرنا پڑیں گے،سرکلر ریلوے کے 24 دروازوں میں سے 14 دروازوںپر تجاوزات ہٹانا ممکن نہیں،ان پربالائی گزر گائیں بنائی جاسکتی ہیں، عدالت سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے منصوبیپر غور کرے۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سرکلر ریلوے کی بحالی اور تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔چیف جسٹس نے سی پیک میں شامل سرکلر ریلوے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے سرکلر ریلوے کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کرنے کاحکم دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گرین لائن ہو یا دیگر منصوبے ان کے لیے انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے جائیں، گرین،اورنج لائن منصوبے بھی جاری رکھے جائیں، سرکلرے ریلوے کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں،عدالت نے کی سی آر کی بحالی کے مکمل منصوبہ اور شیڈول بھی 26 مارچ کو طلب کر لیا ،عدالت کا کہنا تھا کہ ریلوے وفاقی وزارت ہے فنڈز بھی وفاق فراہم کرے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوری اور طویل المدتی دونوں منصوبوں پر کام جاری رکھا جائے،جہاں انڈر پاسز یا فلائی اوورز بنانا پڑیں ایک سال میں مکمل کریں۔ جسٹس گلزار نے رہ،ریمارکس دیے کہ کراچی میں تمام پروجیکٹ مٹی کا ڈھیر ہیں جو گرجائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ گرین لائن اور اورینج لائن مکمل ہوچکی ہے ،یہ منصوبے ورلڈ بینک کے تعاون سے ہورہا ہے ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس طرح کے نقشے مت لایا کریں ہمارا وقت ضائع نہیں کریں۔عدالت نے سندھ حکومت کا پیش کردہ نقشہ اور رپورٹ واپس کردی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو آپ کا دل چاہ رہا تھا بنانے کا وہ بنا دی جو دل نہیں چاہتا وہ کام نہیں کریں گے، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ تو یہ منصوبے ہم ختم کردیتے ہیں اگر بیکار ہیں تو،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے منصوبے کا کوئی فائدہ نہیں جس سے عوام کو فائدہ نہ ہو،کیا اس سے کراچی والوں کی تکلیف ختم ہوجائے گی ؟کب شروع ہوا تھا منصوبہ ؟ سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ 3 سال پہلے منصوبہ شروع ہوا تھا ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 3سال میں تو پورے ملک میں لائنیں بچھ جاتیں آپ گرین لائن مکمل نہیں کرسکے، سندھ حکومت کے نمائندے نے بتایا کہ اگلے سال منصوبہ فعال ہوجائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگلے سال کیوں اگلے مہینے کیوں نہیں ؟ یہ مہینوں کا کام تھا سالوں کا نہیں،ٹھیکیدار کو اس وقت تک پیسے نہیں دیتے جب تک آپ کو حصہ نہیں ملتا ، ابھی بھی چلے جائیں نارتھ ناظم آباد میں کوئی کام کرنے والا نہیں، لوگوں کی زندگی عذاب ہوگئی ہے ، دھول مٹی پڑے ہوئی ہے ، جو آتا ہے اپنا حصہ مانگتا ہے لوگوں کو خواب دکھائیں صرف،لوگ مررہے ہیں اور آپ بین بجا رہے ہیں،ابھی تو گنتی شروع ہوئی ہے پتا نہیں اور کتنے لوگ مریں گے ، گلبہار مین عمارت گرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کل بلڈنگ گر گئی رات کو آپ سب سکون سے سوئے ہیں ،کس کے کان پر جوں رینگی ؟ جوں رینگنا سمجھتے ہیں ؟ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی ، جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ چھوٹے چھوٹے ہلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں ، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے ، جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ سب دکھاوے کے لیے کارروائی کی گئی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا غیر قانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کا کیا ہوا ؟ ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وہ رپورٹ تیار کرلی ہے ،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب تک بڑا ڈنڈا نہیں آتا کوئی کام نہیں کرتا ،کراچی میں کچھ ہوئے بغیر لوگ مررہے ہیں ،کراچی شہر کے بارے میں آپ کو کیا معلوم ہے ؟ کچھ نہیں ،جو منصوبے بنارہے ہیں سب 5 سال بعد گرا دیں گے ،یہ سب فلائی اوورز گریں گے ، کیماڑی کا برج بھی گرنے والا ہے،کیا کررہے ہیں آپ لوگ ؟ کیا چاہتے ہیں آخر ؟ شہید ملت روڈ تباہ کردی، نارتھ ناظم آباد کا حلیہ بگاڑ دیا، یونیورسٹی روڈ کا کیا خبر کردیا ،شہید ملت روڈ خوبصورت ترین سڑک تھی کسی دور میں ،ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ گرین لائن اور اورنج لائن مکمل ہیں جلد فعال ہوجائیں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی میں لاکھوں لوگ موٹر سائیکل پر نکلتے ہیں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں ، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ریڈ لائن یونیورسٹی روڈ سے ہو کر آئے گی ، نئی بسیں آئیں گی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بسیں ابھی کیوں نہیں چلاتے ؟ ابھی چلانے میں کیا مسئلہ ہے ؟ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ بسیں تو چل رہی ہیں ،عدالت کا کہنا تھا کہ سرکاری بسیں کیوں نہیں چلاتے ؟ناظم آباد سے ائرپورٹ جانے میں 4گھنٹے لگ جاتے ہیں ، ہر سگنل پر 25,25منٹ رکنا پڑتا ہے،سارے ملک کی ناکارہ بسیں کراچی میں آگئی ہیں یہاں جنگ اول کی بسیں چل رہی ہیں،افسران کا اپنااپنا ایجنڈا ہے ہر ادارہ چور ہے، ریونیو،واٹر بورڈ ،کے ایم سی سب کا یہی حال ہے ۔ ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کررہی ہے،2 سال میں سندھ حکومت کی ڈیولپمنٹ آپ دیکھیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 6ماہ میں مکمل ہونے والا کام 10سال میں بھی مکمل نہیں کرتے،لوگوں کو خواب دیکھاتے رہتے ہیں، ایسے میں عوام کی زندگی خراب کردی، انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ملک سے محبت ہے کسی کو؟ کراچی میں بلین کی تعداد میں موٹر سائیکلیں ہیں،ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس بی سی اے افسران کی پوری دنیا میں جایدادیں ہیں ،کراچی کے لوگ کیوں انہیں پیسے دے رہے ہیں؟ عدالت کا کہنا تھا کہ بلا امتیاز کارروائی ہوگی کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا ، جھگیاں گرانا آسان ہے اس لیے پہلے گرا دی ہوں گی ،کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ ہم نے پلازہ ، گھر ، میرج ہالز سب گرائے ہیں ،ٹریک کے 50 میٹرز تک جو تجاوزات آئیں گی سب گرائیں گے۔فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ٹیوٹا انڈس کوکیوں نہیں توڑتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی بلا امتیاز کارروائی کریں۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے رائل پارک ریزیڈینسی گرانے کے معاملے نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی ۔گلشن اقبال کے برساتی نالے پر قبضے کے معاملے پر عدالت میں موجود خاتون نے بتایا کہ گلشن اقبال مبینہ ٹاون کے علاقے میں برساتی نالے پر تجاوزات قائم کردی گئی، ہر سال برساتی پانی میرے گھر میں داخل ہوجاتا ہے،برساتی نالے پر قبضہ ایم کیو ایم نے کیا ہے اور یہ لوگ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں،پولیس اور متعلقہ ادارے قابضین کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔عدالت نے ڈپٹی کمشنر شرقی کو خاتون کا مسئلہ حل کرنے کی ہدایت دی۔ بعد ازاں سماعت 26مارچ تک ملتوی کردی۔