یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
ویسے یہ دو دن کا ماجرا نہیں ہے۔ بلکہ ایک عرصہ اور سرمایہ لگایا گیا ہے۔ ایک طرف سرخ قالین کلفٹن انڈر پاس میں دونوں طرف بچھے ہیں جن پر کرکٹ کے مختلف کھلاڑی ایکشن میں نظر آرہے ہیں رنگوں کی بہتات اور زبردست لائٹیں سڑک سے گزریں تو محسوس ہو کہ بس ابھی کسی کرکٹر کی بالنگ یا بیٹنگ سے بال آپ سر پر لگے گی۔ خاص طور سے رکشے کے مسافر تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ رکشہ پچ کے درمیان سے کھلاڑیوں کے درمیان کٹنگ کرکے گزر رہا ہے۔ انڈر پاس سے نکلیں تو پھولوں سے لدی خوبصورت سائیکل منتظر کھڑی ہے۔ فلموں اور ڈراموں والا سین کوئی دوہرانا چاہے تو ہینڈل پر بٹھا کر شوٹ کیا جاسکتا ہے بس ذرا ٹریفک پولیس سے نظر بچانی ہوگی۔ شاہراہ فیصل پر سب سے پہلے تو رنگ رنگیلا چمکتا دمکتا رکشہ آپ کا منتظر ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اُس میں بیٹھیں یا تصاویر کھنچوائیں۔ آگے آگے چلتے جائیں اور بھی خوبصورت مناظر آپ کی توجہ کے منتظر ہوں گے۔ خوبصورت سنہری لکڑی کے تنوں کی شکل کے بورڈ جن پر کراچی کو لائٹوں کا اور کرکٹ کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ سڑکوں کے کنارے صاف ستھرے مٹی اور کچرے سے پاک ہیں۔ سب سے حیران کن نظارہ کلفٹن پر پل کے بعد کارنر والی پرانی عمارت ہے جس میں بوسیدگی کے باعث کوئی نہیں رہتا لیکن اس کی بالکونیوں میں لٹکے پھولوں کے گملے اور روشنی جیسے وہاں کوئی خاندان رہ رہا ہے۔ حالاں کہ پچھلے کئی عشروں سے تو ہم انہیں بے آباد اور ویران ہی دیکھ رہے ہیں۔
کلفٹن پل کے اطراف میں پیدل پپڑھی (فٹ پاتھ کا اردو ترجمہ اردو ڈائجسٹ میں ہمارے چھپنے والے ایک افسانے میں کیا گیا تھا لہٰذا ہم نے اِسے معتبر سمجھتے ہوئے پلو میں باندھ لیا ہے ٹھیک کیا یا نہیں یہ اطہر ہاشمی صاحب بتائیں گے) پر لگنے والے بلاک واقعی دنوں کا ماجرا ہیں۔ ایک دفعہ اُسے اُجڑا ہوا دیکھا دوسری دفعہ گزرے تو انتہائی سلیقے اور ہنر مندی سے لگ چکے تھے۔ کراچی کی جگمگاہٹ پر جو اتنی تمہید باندھی گئی ہے تو وہ صرف یہ کہنے کے لیے ہے کہ کیا ہوا گر سارا شہر سارا سال ایسا ہی جگمگانے لگے۔ صاف ہو، خوبصورت نظارے ہوں، پھول پھلواری، سبزہ آنکھوں کو تراوٹ دے، یہ کوئی ایسا خواب بھی نہیں جو پورا ہونا مشکل ہو۔ آخر کراچی پورے ملک کو چلا رہا ہے۔ اس کا حق ہے کہ اُسے ایسا چمکتا دمکتا رکھا جائے۔ اور یقینا اس سے پورے ملک کا فائدہ ہوگا۔ بس اہل کراچی کو انتخابات کے موقع پر دھوکا کھانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اپنوں کے منہ میں بہت گھی شکر دے دیا ہے۔ اب اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ سندھ اور لاڑکانہ کے اپنوں نے بھی خون تھکوا دیا اور کراچی کے اپنوں نے بھی۔ انہوں نے تو ندیاں بہا ڈالیں۔ بس اب عقل کے ناخن لے ہی لیں۔ کراچی کا ایک قدیمی درخت ہوتا تھا برگد کا درخت جو کراچی کے پرانے علاقوں میں کثرت سے موجود تھا۔ کلفٹن میں دو تلوار سے سمندر کی طرف جاتے ہوئے اُس سڑک پر جس کو اب ’’حاتم علوی روڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے دونوں طرف برگد کے قدیم درخت بازو پھیلائے ایک دوسرے سے گرم جوشی سے ملتے نظر آتے تھے۔ سخت گرمی میں یہ سڑک سایہ دار اور ٹھنڈی رہتی تھی اب وہاں برگد کے درخت آدھے رہ گئے ہیں بلکہ اُن آدھوں کے بازو بھی کاٹ کر انہیں ٹنڈا سا بنا دیا ہے۔ اس سڑک کے کنارے جس پارک کے گیٹ پر افتتاحی تختی پر تاریخ 1938ء تحریر ہے، وہ قدیم تاریخی پارک بھی بس برائے نام پارک رہ گیا ہے۔ پارک کی گرل کے آس پاس جو بچے کھچے برگد کے درخت ہیں ان کے ٹنڈے بازوئوں میں سائیکل اور موٹر سائیکل کے ٹائر اور ٹیوب ٹنکے دور سے نظر آجاتے ہیں۔
برگد کے درخت کو بڑ یا بوہڑ کا درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دودھ بوہڑ کے دودھ کے نام سے آیورویدک دوائوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ دودھ لوگ برگد کے درخت پر کٹ لگا کر جمع کرتے تھے اور حکیموں کو فروخت کرتے تھے۔ آج بھی کرتے ہیں لیکن اب ان درختوں کی تعداد گھٹ کر گنی چنی رہ گئی ہے۔ یہ درخت پرندوں کا آشیانہ تھے۔ اس کا پھل ان کی غذا تھے اور شاخیں انہیں گھر اور پناہ فراہم کرتے تھے۔ بالکل کراچی شہر کی طرح جہاں ہر ایک کے لیے پناہ عزت اور روزگار میسر ہوتا تھا۔ گھنا سایہ تحفظ امن اور سکون تھا۔ لیکن تعصب کی آندھی نے وہ محبتیں بکھیر دیں۔ وہ لوگ جنہیں پچھلے پچیس تیس سال سے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا گیا انہوں نے کراچی کو کٹ لگا کر دودھ جمع کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ ورنہ یہ عرصہ کسی شہر کو بنانے ہی کے لیے نہیں نیا شہر بسانے کے لیے بھی کافی تھا۔ حالاں کہ اتنا عرصہ پہلے شہر کراچی واقعی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور امن و سکون کی دیوی اس پر سایہ فگن تھی۔ اب حالات بہتر ہیں۔ اللہ کرے بہتر سے بہتر ہوں۔ اور وہ خوفناک، ہولناک اور آسیب زدہ دن اس شہر میں پھر کبھی نہ آئیں۔