گرفتار ہوا تو آصفہ میری آوازہوگی، بلاول نیب میں پیش۔32سوالوں کے جواب طلب

142

راولپنڈی(صباح نیوز)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری جے وی اوپل کیس میں قومی احتساب بیورو( نیب) راولپنڈی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو گئے۔ بلاول ڈیڑھ گھنٹے کے قریب نیب آفس میں موجود رہے۔نیب ٹیم نے بلاول سے سوالات بھی کیے جبکہ نیب ٹیم کی جانب سے بلاول کو 32سوالات پر مبنی سوالنامہ بھی دیا گیا۔نیب نے بلاول کو 2 ہفتے میں سوالوں کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے،نیب نے بلاول سے زرداری گروپ آف کمپنیز کے حوالے سے سوالات کیے۔ نیب میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا کہ عمران خان پر واضح کر دینا چاہتا ہوں ہم پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کو نہیں مانتے اور دبا ئوکے باوجود اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، گرفتار ہوا تو آصفہ میری آواز ہوںگی اور تحریک چلائیں گی،مارچ کے اعلان پر ایک اور نوٹس آ جاتا ہے، حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، اعتراضات کے باوجود پیش ہوا۔بلاول زرداری نے کہا کہ نیب ٹیم سے تفصیلاً گفتگو ہوئی اور انہوں نے سوالنامہ بھی دیا۔بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ بار بار حکومتی اداروں اور نیب کی جانب سے پورے ملک میںبار بارہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اسی تسلسل میں مجھے آج پھر بلایا گیا۔بلاول نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب عباس اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابدساقی کی جانب سے انہیں نیب کی جا نب سے نوٹس جاری کرنے کی مذمت کرنے کے اقدام کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب اور حکومت کی جانب سے مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے مذمت کی ہے۔ان کا کہنا تھا ملک کی وکلاء برادری جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہو رہی ہے اور سیاسی انتقام کے خلاف اپنی آواز بلند کررہی ہے، سب کو پتا ہے کہ ایک سال سے زاید عرصہ قبل چیف جسٹس نے خود کہا تھا بلاول بے گناہ ہیں لیکن میں نے اس کے باوجود خود کو نیب کے سامنے پیش کیا، میں 3 مرتبہ پہلے بھی جواب دے چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ نیب کو کوئی اعتراضات نہیں تھے، اچانک پتا نہیں دسمبر میں کیا ہوا جب پہلا نوٹس بھیجا گیا، جب کراچی میں ہم نے مارچ سے ملک میں معاشی صورتحال اور پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تو فوری نیب کا نوٹس آگیا۔چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی اور اداروں کا احترام کرتے ہیں، صحیح اور غلط میں بھی ان کا احترام کرتے ہیں،اس لیے اعتراض کے باوجود نیب میں پیش ہوا جب کہ جے آئی ٹی کے اپنے وکیل نے مان لیا ان کی تجاویز غلط ہیں۔بلاول نے مزید کہا کہ جس الزام میں بلایا گیا ان کو پتا ہے میں کبھی کاروباری سرگرمی میں شامل نہیں رہا، اگر شامل بھی ہوتا اس میں پرائیوٹ ٹرانزکشن ہوتی ہے اس میں نہ حکومت کی زمین ہے اور نہ پیسہ ہے، اس میں نیب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، میں اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا تو کیا تک بنتا ہے مجھے بلاکر سوال کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ سوالات کا جواب پہلے بھی دیا، میرا موقف کل جو تھا آج بھی وہی ہوگا کہ میں بے گناہ ہوں، یہ سیاسی انتقام کی مہم اور کردار کشی کی مہم ہے جس سے وہ جمہوری قوتوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، ہماری یہ غلط فہمی تھی کہ ہم نے سوچا نیب والے ایک سال کے بچے پر کیس نہیں بنائیں گے،جب شیئر ہولڈر بنا تو 7 سال کا تھا، یہ امید نہیں تھی کہ جب چیف نے کہہ دیا تب بھی ہمارے خلاف سیاسی انتقام جاری رہے گا۔چیئرمین پی پی نے کہا کہ ان کو ابھی نہیں پتا کہ دبائو کے باوجود ہم جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، خاص طور پر اس وقت جب غریب عوام پس رہے ہیں، عمران خان کو کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کے پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کو نہیں مانتے، اسے پھاڑ کر اڑا دیں گے، آپ نے سفید پوش طبقے کا معاشی قتل کردیا ہے اور پھر کہتے ہیں قبر میں سکون ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ ظلم اور معاشی قتل مزید برداشت نہیں کرسکتے، جو بھی دھمکی اور دبائو ہوپیپلزپارٹی کا کوئی کارکن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ملک کی وکلا برادری جمہوریت اور قانون کے ساتھ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول زرداری نے کہا کہ اپوزیشن لیڈرکا عہدہ قائد ایوان کے عہدے جتنا اہم ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشی، کشمیر، دہشت گردی اور سیاست کا معاملہ ہو، اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان اسمبلی میں نہیں ہوتے،امیدہے اپوزیشن لیڈر ملک میں جلد ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ہم گرفتاریوں کے خلاف ہیں،اگر میں گرفتار ہوا تو آصفہ میری آواز ہوں گی۔ اس موقع پرسید یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، سید نیئر حسین بخاری، چودھری قمر زمان کائرہ، چودھری منظور احمد ، سینیٹر شیری رحمن، سینیٹر فاروق حمید نائیک، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر،سابق سینیٹر فرحت اللہ خان بابر، شگفتہ جمانی اور دیگر پی پی رہنما بھی موجود تھے۔