سندھ ہائی کورٹ کا تحقیقاتی کمیشن

327

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنھور نے ان کے روبرو زیر سماعت کیسD-5634/2019میں سہ فریقی ویلفیئر اداوں کی کارکردگی کے سلسلے میں مختلف حلقوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو چانچنے کے لیے سینئر سول جج سمیع اللہ پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن مقرر کیاہے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ کمیشن کے سربراہ صبح آٹھ بجے پورے اپنا کام شروع کرتے ہیں جس سے ان بیورو کریٹ کو سخت تکلیف ہوتی تھی جو کبھی گیارہ بجے سے پہلے ڈیوٹی پر نہیں آتے اور جج صاحب ملکی روایات کے برعکس نہ کسی کا کھانا قبول کرتے اورنہ پینے کا پانی یہ اپنے ساتھ خود لایا کرتے تھے۔پورے صوبہ کی سطح پراندرون سندھ سے لے کر کراچی تک عبدالعزیز عباسی جنرل سیکرٹری، وطن دوست فیڈریشن پاکستان ممبر ورکرز ویلفیئر بوڈ نے مزدوروں کی نمائندگی کرتے ہوئے دورے میں جج صاحب کے ساتھ رہے ۔جبکہ کراچی میں شفیع غوری ، ملک منور ، عبدالروف نے اہم کردار ادا کیا۔ حیدآباد کوٹری نوری آباد اور لاکھڑا کول فیلڈ میں عباسی صاحب میرے ساتھ رہے یہاں میں نے جج صاحب کو زمینی حقائق بتائے تاکہ کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے ذریعہ ان سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے مزدوروں کو مالی ریلیف ملنے کا سلسلہ شروع ہوسکے جو اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعدکم ہوچکا ہے۔ میں نے کمیشن کے سربراہ وہ باتیں بتائی جو سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن ۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ اور مائینز لیبر آرگنائزیشن کی طے شدہ غیر متنازعہ ذمہ داریاں ہیں مگر وہ یہ ادارے پوری نہیں کرتے یا پھر ان عوامل سے جج صاحب کو آگاہ کیا جس کی وجہ سے بتدریج یہ ادارے خالصتاً صرف اور صرف حکومتی پالیسی اور مفادات تک محدود رہ کر کام کررہے ہیں ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جس نے اس ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی سے ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ2014منظور کرواکر اسلام آباد سے علیحدگی اختیار کی یہ صوبہ کاآئینی حق تھا جس کو استعمال کیا گیا مگر اس کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی شروع کی گئی کہ مزدوروں کی فلاح وبہبود کے یہ ادارے اور ان کے بورڈ مکمل طورپر حکومت ے کنٹرول میں آجائیں ۔تاکہ ان کے فنڈ کو بھی حکومتی پالیسی کے ذریعے استعمال کیا جاسکے ۔ سب سے پہلے جو صوبائی بورڈ بنایا گیا ۔ اس میں تینوں مزدور نمائندے اور ایمپلائیر کے نمائندے حکمران جماعت کے سیاسی حامیوں پر مشتمل نامزد کئے گئے ۔اس کے علاوہ اکثر صوبائی محکموں سے بورڈ کے نمائندے نامزد کئے گئے اور سپیکر سندھ اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ تین صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ممبر نامزد کریں اس بورڈ میں اندرون سندھ سے محکمہ لیبر نے میرا نام مزدور نمائندے کے طورپر تجویز کیا تھا۔ چنانچہ مجھے کراچی سے فون کال پر بتایا گیا کہ مجھے فلاح تاریخ کو گیارہ بجے پریس کلب کے سامنے بلڈنگ میں سنیٹر سلیم مانڈوی والا کے دفتر آکر بورڈ ممبری کے لئے انٹرویودینا ہے ۔میں نے کال کرنیوالے کو بتایا کہ بیٹا میں اس بورڈ میں دس سال ممبر رہاہوں اور انٹرویو توملازمت کے حصول کے لیے ہوتی ہے میری عمر تو 70سال سے زائد ہے اور بورڈ کے ممبر بننے کے لیے میں انٹرویو نہیں دوںگا۔ آپ کو بہت دوسرے خواہشمند مل جائیں گے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب اٹھارویں ترمیم کے بعد پہلے بورڈ بنانے کے لیے حکمران جماعت کے سنیٹر نے انٹرویو لیے اور تین صوبائی اسمبلی کے علاوہ سکریٹری لیبر کو چیئرمین کے عہدے سے ہٹاکر ممبر اور وزیر محنت کو چیئرمین بنادیاگیا ۔ جب اس یکطرفہ حکومتی بورڈ کے خلاف مزدور تنظیموں نے آواز بلند کی تو مزدور اور ایمپلائیر کی نمائندگی تین سے بڑھاکر چار کردی گئی مگر اس سے صنعتی کارکنوں کو فائد ہ ہونے بجائے مزید حکومتی کنٹرول کو مستحکم کیاگیا۔وزیر محنت کے کمرے میں بیٹھ کر چار افراد نے پیپلز لیبر بیورو کے افراد پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جو حضرات مزدور نمائندوں کے طورپر نامزد کئے گئے وہ بینکوںیا ایسے اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین ہیں جن اداروں پر ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا اور نہ یہ حکومت کے کسی تجویز کی مخالفت کرسکتے ہیں ۔ میں نے کمیشن کے سربراہ کو بتایا کہ جب تک اسٹیک ہولڈر کی نامزدگی کا معیار مقرر نہیں ہوتا سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں وزیر محنت صرف پیپلز لیبر بیورو سے نامزدگی کریں گے۔ہم نے کمیشن کو بتایا کہ پندرہ بیس سال پہلے تعمیر شدہ لیبر کالونیوں میں بجلی پانی گیس اورصفائی کا انتظام نہیں کیا یہ بورڈ کی ذمہ داری نہیں؟ جولیبر کالونی یا لیبر سٹی 5سال پہلے مکمل ہوچکی ہیں اس کی الاٹمنٹ کیوں نہیں کی گئی کیا یہ منصوبہ بندی کے تحت اس خاص فیصلے تک موخر رکھی گئی تھی۔جو 26دسمبر2019کو بورڈ سے حکومتی اکثریت کے بل پر کرایا گیا صرف عبدالعزیز عباسی نے مخالفت کی اس مزدور دشمن فیصلے کے بعد آسانی سے آئندہ بورڈ کے مکان اور افلیٹس فروخت ہونگے یا پھر من پسند افراد کو سنیارٹی کا لیبل لگا کر دیے جائیں گے۔ ہم نے کمیشن کو بتایا کہ آٹھ دس سال سے ڈیتھ گرانٹ کے کیس ملازمت کے دوران جاں بحق مزدوروں کی بیواؤں اور قانونی وارثوں کو نہیں ملے اور نہ ان کیسوں پر کسی اعتراض سے درخواست گذاروں کو آگاہ کیا گیا ۔30جنوری کو سوشل سیکورٹی کے آفس میں سیکریٹر ی بورڈ نے فرمایا کہ کراچی شہر میں ڈیتھ گرانٹ کیسوں کی Pendingصفر ہے ۔واہ یہ تو مزید غور طلب بات ہے کیا کراچی شہر میں کسی خاص وجہ سے یہ مہربانی ہورہی ہے جبکہ اندرون سندھ تو سینکڑوں پڑے ہیں صرف لاکھڑا کول فیلڈ مائیننگ حادثات میں فوت ہونیوالوں کے 80 کیس 2010 سے Pendingہیں۔ لاکھڑا کول فیلڈ کے تمام کیس ہر لحاظ سے مکمل ہیں ہم نے بتایا کہ لاکھڑا کول فیلڈ میں تمام لیبر کالونیوں میں بجلی اور پانی نہیں ان کی چاردیواریاں گرگئی ہیں ان کالونیوں کے نام پر بھرتی بارہ ملازمین گھروںپر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں ۔یہ لیبر کالونیاں یتیم خانوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ یہاں ورکرز ماڈل اسکول پر کڑوروں روپیہ خرچ ہونے کے بعد دس سال سے تعمیری کام معطل ہے ۔ لیبر کالونیوں کارابطہ سڑک تباہ ہے۔ لاکھڑا میں مائینز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کے اسپتال کو ہم متحدہ لیبر فیڈریشن کی طرف سے ہر ماہ تین سے چا ر لاکھ کی میڈیسن فراہم کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر اور سنیٹری ورکرز ہمارے ملازم ہیں مائینز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کے بجٹ میں میڈیسن کے لئے پچاس لاکھ مختص ہیں پیٹرول مشینری بجلی اور ہر چیز کے لئے بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے مگر ایک روپیہ کی میڈیسن بھی فراہم نہیں کی جاتی ۔اس ادارے کے ویلفیئر بورڈ کو دس سال سے معطل رکھا گیا تاکہ جوابدہی کا نظام ختم ہو۔ ایک لیبر کالونی لاکھڑا میں ہم نے یونین کے فنڈ سے بائیس لاکھ کے خرچ سے ٹرانسفارمر اور ہر کواٹر میں بجلی کے میٹر لگائے۔محکمہ لیبر سندھ اور اس کے ماتحت ادارے مزدور تنظیموں اور لیبر لیڈر کو تسلیم ہی نہیں کرتے ان کوصرف پیپلز لیبر بیورو کے سامنے جوابدہ بنادیا گیا ہے۔ سابقہ مزدور رہنما اور حالیہ وزیر محنت سے کم از کم مجھے امید تھی کہ کسی حدتک ناجائز طریقوں اور کرپشن کو روکنے کی کوشش ضرور کریں گے مگر وہ تو مزدور لیڈروں سے ملاقات کرنا بھی اپنے شان کے خلاف سمجھتے ہیں اس طرح سیکریٹری لیبر سندھ یا ڈائریکٹر نے سابقہ روایات کو یکسر ختم کرکے صرف اوپر والوں کو خوش رکھنے اور پیپلز لیبر بیورو کو مطمئن کرنے کو اپنی کرسی برقرار رکھنے کاذریعہ بنارکھا ہے۔محتر م بلاول بھٹو زرعی خواتین کویونین بنانے کا حق دلوانے کو کارنامہ قرار دیتے ہیں وہ بے چاری خواتین تو یہ حق استعمال نہیں کرسکے گی مگر سندھ کے صنعتی اداروں میں کام کرنیوالے مزدوروں سے بھی یہ حق چھین لیا گیا ہے عملاً محکمہ لیبر سندھ سے صنعت کاروں کی پاکٹ یونین ہی رجسٹرڈ ہوسکتی ہے مزدور دوست پارٹی کے دورمیں لاکھڑا کول فیلڈ کے معدنیات پر قبضہ کرنے کے لیے PMDCاور LCDCجیسے قومی اداروں کی مائیننگ لیز منسوخ کرکے پانچ ہزار کارکنوں کو بے روز گار کیا گیا۔اس سلسلے میں جب ہم نے متعلقہ یونینوں کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کیا تو حکومت کے ذمہ دار لوگ ہماری یونین کے کچھ لوگوں سے رجوع کرکے کہتے ہیں کہ ان بے روز گار ہونے والے لوگوں میں سے صرف مقامی لوگوں کی فہرست ہمیں دیدیں باقی سب کو چھوڑدیں ہم صرف مقامی لوگوں کو سندھ لاکھڑا کول کمپنی میں رکھنے کی کوشش کریں گے یہ ہے پیپلز پارٹی جو مزدور طبقے میں بھی تعصب پھیلارہی ہے اور اعلانیہ لاکھڑا کول فیلڈ میں سندھ لاکھڑا کول کمپنی کے نام فی ٹن بھتہ وصول کیا جارہا ہے۔ پرائیویٹ کول کمپنیوں کو ماہانہ خطیر رقم نہ دینے پر ان کی الاٹمنٹ کینسل کرنے کی دھمکیاں عام ہیں کیا یہ پارٹی کے نوجوان چیئرمین نیب اور انٹی کرپشن کو پتہ نہیں ۔کہ لاکھڑا کول فیلڈ میں رشوت کے دباؤ کی وجہ سے کمپنیاں بند ہورہی ہیں ۔ جس سے مزید ہزاروں مزدور بے روزگار ہوں گے۔ کیا کوئی اس کا نوٹس لے گا۔ ہاں یہ یقینی ہے کہ لاکھڑا کول فیلڈ کومنصوبہ بندی کے تحت بند کرایا جارہاہے تاکہ تمام معدنیاتی ذخائر پر حکومت کے بااثر لوگ قبضہ کرسکیں ۔ ہم کمیشن کے رپورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے انتظار میں ہوں گے۔ لیکن لاکھڑا کول فیلڈ میں جاری لوٹ مار کون روکے گا۔لوگ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ نیب کے ٹیلی ویژن پر کرپشن ختم کرنے کے دعویداروں کو لاکھڑا کول فیلڈ سے سندھ لاکھڑا کول کمپنی کے نام پر روزانہ لاکھوں روپیہ بھتہ وصول کرنے والے کیوں نظر نہیں آتے یہ تو یہاں کوئلے کے ہر مزدور کوپتہ ہے کہ لاکھڑا کول فیلڈ موجودہ وزارت معدنیات کے دورمیں رشوت کی آگ میں جل رہاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ لاکھڑا کول کمپنی کے نام پرکھلی بدعنوانی کو روکا جائے ۔یہ کرپشن جب اربوں میں پہنچ جائے گی کیا پھر نیب اس کی تحقیقات شروع کرے گا؟ اسوقت تک تو لاکھڑا کی مائیننگ انڈسٹری تباہ ہوچکی ہوگی پھر کیا فائدہ ہوگا۔