مادر پدر آزاد الیکٹرانک میڈیا

372

1977 میں جب پاکستان قومی اتحاد نے جنرل ضیاء کی حکومت میں اس لیے شرکت اختیار کی کہ انہیں ملک میں عام انتخابات منعقد کرانے پر آمادہ کیا جائے اس لیے کہ وہ 90دن میں انتخاب کرانے کے وعدے سے منحرف ہو چکے تھے اور پہلے احتساب پھر انتخاب کی آوازیں لگنا شروع ہوگئیں تھیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے پروفیسر عبدالغفور، چودھری رحمت الٰہی اور محمود اعظم فاروقی کابینہ میں شریک تھے، محمود اعظم فاروقی کو وزیر اطلاعات بنایا گیا، جب ان وزراء نے حلف اٹھایا اسی ہفتے پی ٹی وی پر آنے والی فلم اچانک روک دی گئی۔ یہ اب سے 43سال قبل کی بات ہے اس زمانے میں ہر جمعرات کو رات نو بجے خبرنامے کے بعد ٹی وی پر فلم دکھائی جاتی تھی ہر ایک کے گھر ٹی وی نہیں ہوتا تھا اس لیے جن خوشحال گھروں میں ٹیلی ویژن ہوتا تو ان کے گھروں میں ان کے رشتہ دار، دوست احباب جمع ہو جاتے چنانچہ ہر جمعرات کی نو بجے ہماری گلیوں اور سڑکوں پر عورتوں اور بچوں کا رش نظر آتا جو اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھر فلم دیکھنے جاتے اور شاید اس وقت یہی ایک تفریح تھی۔ جب فلم روکی گئی تو اس کا شدید ردعمل ہوا فاروقی صاحب کے پاس براہ راست کئی فون آئے بیش تر با اثر افراد نے ضیاء الحق تک سے رابطہ کیا، ضیاء صاحب نے فاروقی صاحب کو فون کیا اور فلم روک دینے کی وجہ معلوم کی فاروقی صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے فلم روکنے کا حکم دیا نہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کس کے کہنے سے روکی گئی، جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ سیکرٹری اطلاعات نے ازخود اپنے حکم سے اسے رکوایا تھا، خیر فاروقی صاحب نے سیکرٹری کے حکم کو منسوخ کردیا۔ ہماری بیورو کریسی کے یہ ہوتے ہیں باریک کام کہ جماعت اسلامی کے وزیر ہیں اس لیے آگے بڑھ کر ایسی کارکردگی دکھائی جائے کہ وہ خوش ہو جائیں اور دوسری طرف عوام کو بھی جماعت اسلامی سے متنفر کردیا جائے کہ ابھی ایک دو وزارت میں یہ صورتحال ہے تو جب پورے ملک میں جماعت کی حکومت ہو گی ہماری تفریحات کا تو بیڑہ غرق ہو
جائے گا۔ فلم کے حوالے سے فاروقی صاحب نے اپنی ایک سنسر کمیٹی بنائی اس کمیٹی میں ایک وہ خود اور دوسرے راولپنڈی کے ایک بزرگ رکن جماعت تھے جو فلم ٹی وی پر پیش کی جاتی اسے ایک دن پہلے فاروقی صاحب اور ان کے ساتھی اس کو دیکھتے اور قابل اعتراض مناظر اور گانوں کو سنسر کرتے اس سنسر شپ میں اس بات کا ضرور خیال رکھا جاتا کہ کہانی کا تسلسل متاثر نہ ہو اور کچھ نہ کچھ انٹر ٹینمنٹ بھی رہے۔ اسی طرح انہوں نے اشتہارات کے حوالے سے بھی کچھ فیصلے کیے تھے اس کی تفصیل انہوں نے غفور صاحب کے گھر کارکنوں کے ایک اجتماع میں بتائی تھی۔
اس وقت ہمارا موضوع مختلف ٹی وی چینلز سے پیش کیے جانے والے ڈرامے ہیں، ہمارے گھروں میں خواتین اور بچوں کو اس کی ایک لت پڑ گئی ہے، پھر ان ڈراموں میں جس طرح ہماری اسلامی اور مشرقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس طرف سے پیمرا نے بھی آنکھیں بند کی ہوئیں ہیں۔ ہمارے اور اکثر رشتہ داروںکے یہاں جب کبھی جانا ہوتا ہے وہاں لوگ آپس میں ٹی وی ڈراموں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں تو ہم انجانوںکی طرح ان کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ 27جنوری کے جسارت میں قدسیہ ملک صاحبہ کا اس حوالے سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے چینلز پر پیش کیے جانے والے ڈراموں پر غیر ملکی این جی اوز کے اثر و رسوخ پر ایک معلوماتی تجزیہ پیش کیا ہے کہ کس طرح یہ این جی اوز ایک خاص مقصد کے تحت پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہیں اور ہمارے کہانی نویسوں، پروڈیوسروں، ڈراما نگاروں اور ڈائریکٹروں کس طرح چمک دکھا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اور پھر مثال کے طور پر انہوں نے حال ہی میں اے آر وائی پر پیش کیے جانے والے ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ پر کچھ تنقید کی۔ اور بھی محفلوں میں اس کی تعریف، تبصرے منتخب ڈائیلاگ کے جملے اور سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید نے اس بات پر آمادہ کیا کہ اس پر کچھ اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے۔ اس ڈرامے کے رائٹر خلیل الرحمن قمر ہیں جن کے کئی ڈرامے پہلے بھی مقبول ہو چکے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں خلیل الرحمن قمر نے مولانا مودودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی نے کہا ہے کہ جھوٹ اکیلا نہیں ہوتا اس کے انڈے بچے بھی ہوتے ہیں… اور بھی انہوں نے مولانا کے جملے ادا کیے پوری طرح یاد تو نہیں لیکن یہ بات ذہن میں آئی انہوں نے مولانا کو بھی پڑھا ہوا ہے، وہ دراصل سچ کے موضوع پر بات کررہے تھے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سچ لکھتے ہیں اس لیے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔
ان کے سچ پر تو بعد میں بات کریں گے، پہلے سہیل وڑائچ کے ایک دن جیو کے ساتھ ان کے انٹرویو پر بات ہو جس کا حوالہ قدسیہ ملک صاحبہ نے اپنے آرٹیکل میں دیا ہے۔ اس انٹرویو میں ان کی اہلیہ اور بیٹی بیٹا ساتھ تھے اسی میں انہوں نے بتایا کہ وہ ایک کہانی کے پچاس لاکھ لیتے ہیں این جی او والا معاملہ تو ابھی پردے میں ہے۔ اسی میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر کہانی تخلیق ہوتی ہے ان کے لکھے ہوئے مکالموں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اگر ایسا کوئی کرے گا تو وہ آئندہ ہمارے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کے اکثر مکالمے بہت جاندار ہوتے ہیں اور کچھ متنازع بھی۔ جیسے کہ یہ مکالمہ سوشل میڈیا پر بہت تنقید کا نشانہ بنا کہ ’’دو ٹکے کی عورت کے تم پچاس ملین دو گے‘‘۔ لیکن کچھ مکالمے ان کے اچھے بھی ہیں چند تمثیل کے لیے ’’عورت فطرتاً بے وفا نہیں ہوتی اور جو بے وفا ہوتی ہے وہ فطرتاً عورت نہیں ہوتی ’’ایک یہ‘‘ سب خوبصورت ہوتے ہیں سب سے خوبصورت کوئی نہیں ہوتا‘‘۔ اور بھی اچھے مکالمے ہیں لیکن ہمیں خلیل الرحمن سے کچھ سوالات کرنے ہیں کیا وہ یہ پسند کریں گے کہ ان کا بیٹا اپنی بہن کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کسی نائٹ کلب میں ڈانس کرے۔ ایک شادی کے موقع پر جب دانش (ہمایوں سعید) نے اپنی بیوی مہوش (عائضہ خان) پر شہوار (عدنان صدیقی) کے ساتھ ڈانس کرنے پر غصے کا اظہار کیا تو اس کی بیوی نے جواب دیا کہ تم بھی تو اس عورت کے ساتھ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ڈانس کررہے تھے اس بات پر دانش صاحب جواب دیتے ہیں تو کیا ہوا وہ تو میری بہنوں کی طرح ہے، یعنی بہن بھائیوں کا نائٹ کلب میں ڈانس کرنا کہانی نویس کے نزدیک کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے کیا یہ سچ ہے؟ اور کیا یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی حسین نوجوان عورت اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایسے شخص کے پاس بغیر نکاح کے پانچ ماہ تک رہے جس کی بیوی دو سال سے امریکا میں ہے۔ پھر اس شخص کی پہلی بیوی اس عورت کو پچاس لاکھ ماہانہ کے حساب سے اسے ڈھائی کروڑ کی رقم کا چیک اسے اس کے معاوضے کے طور پر دے۔ میں سمجھتا ہوں اس طرح کی بے حیائی، ڈھٹائی، بے غیرتی اور ضلالت و گمراہی والے خیالات کسی شیطان کے دوست (خلیل الشیطان) کے تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی رحمن کے دوست (خلیل الرحمن) کے نہیں ہو سکتے۔
آخر میں میری تجویز ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی ایک سنسر کمیٹی تشکیل دے جس میں پیمرا کے نمائندے ہوں شوبزنس سے تعلق رکھنے والے کچھ سمجھدار لوگ ہوں اور کچھ علمائے کرام ہوں جو چینلز پر چلنے والے ڈراموں کو دیکھے کہ اس میں اسلامی اقدار کی بے حرمتی تو نہیں ہورہی ہے اور اس کے علاوہ، وہ اس پر اپنی ایک مستقل سفارشات مرتب کر کے پیمرا اور چینلز کو دے کہ وہ اس دائرے میں رہ کر اپنے پروگرام پیش کریں۔