کورونا وائرس نے دنیا میں ہیبت پھیلادی ہے یا پھیلادی گئی ہے۔ روز ہی پوری دنیا سے خبر آرہی ہے کہ کورونا وائرس کا ایک اور کیس دریافت ہوگیا۔ کورونا وائرس سے ابتدا میں انسانی نظام تنفس میں سوزش پیدا ہوتی ہے جو بعد میں جاں لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس سے پوری دنیا میں تقریباً 14 سو افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے۔ چونکہ یہ وائرس چین سے پھیلا ہے اس لیے چین میں اس کے خلاف سخت کارروائی جاری ہے۔ اس سخت کارروائی میں شہروں کا لاک ڈاؤن بھی شامل ہے۔ کورونا وائرس کی ہیبت کو پھیلانے والوں کے موثر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے Federal Emergency Management Agency (FEMA) نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے امریکا میں مارشل لا تک لگانے کی تجویز پیش کردی ہے۔
کیا کورونا وائرس اتنا ہی خوفناک ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے امریکا میں مارشل لا کی تجویز پیش کردی جائے اور چین میں کئی شہروں کا لاک ڈاؤن کرکے اس کے کروڑوں شہریوں کو محصور کردیا جائے۔ یہ اہم ترین سوال ہے، اس کا جواب مل جائے تو کئی اور سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ کسی بھی بیماری کا وبائی پھیلاؤ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ہیضہ اور طاعون ایسی صورتحال کے لیے مشہور رہے ہیں۔ تاہم جب سے حیاتیاتی ہتھیاروں کی ابتدا ہوئی ہے، اُس دن سے اگر کوئی وبائی بیماری یا وائرس پھیلے تو پھر کان ضرور کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایبولا اور زیکا وائرس زیادہ پرانی بات نہیں ہیں۔ زیکا وائرس کس طرح بنایا اور پھیلایا گیا، اس پر آرٹیکل میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
جس طرح سے کورونا وائرس پر پوری دنیا میں شور شرابہ ہے، اس حوالے سے دیکھیں تو بادی النظر میں کوئی ایسی ہولناک بات نظر نہیں آتی کہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر کروڑوں افراد کے خاتمے کا سبب بن سکے۔ اب تک اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سو بھی نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے مقابلے میں ملیریا کو دیکھ لیں۔ صرف افریقا میں ہر برس پانچ لاکھ سے زاید افراد ملیریا کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ اس سے متاثرین کی تعداد دسیوں کروڑ ہے۔ اس کے مقابلے میں انفلوئنزا کو بھی دیکھ لیں۔ اس برس انفلوئنزا سے صرف امریکا میں اب تک ایک کروڑ تیس لاکھ سے زاید امریکی متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے ایک لاکھ بیس ہزار کو اپنے علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل ہونا پڑا جبکہ اب تک چھ ہزار چھ سو امریکی انفلوئنزا کا شکار ہو کر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ابھی موسم سرما ختم نہیں ہوا ہے اور یہ صرف امریکا کے اعداد و شمار ہیں، کینیڈا، جنوبی و لاطینی امریکا اور یورپ، نیوزی لینڈ و آسٹریلیا کے اعداد و شمار اس میں شامل نہیں ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ امریکا میں انفلوئنزا کامقابلہ کرنے کے لیے تو مارشل لا کی تجویز پیش نہیں کی گئی مگر کورونا وائرس کے لیے ضرور یہ تجویز پیش کردی گئی ہے۔
اس سوال کا جواب بوجھنے سے پہلے کورونا وائرس کے بارے میں جانتے ہیں۔ کورونا وائرس پہلے سے دنیا میں ضرور موجود رہا ہے مگر اسے ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کام انگلینڈ کے Pirbright Institute نے شروع کیا۔ Pirbright Institute کے اس پروجیکٹ کے مالی مددگار تھے Bill and Melinda Gates Foundation اور Johns Hopkins Bloomberg School of Public Health۔ کورونا وائرس کو باقاعدہ امریکا میں Pirbright Institute نے پیٹنٹ بھی کروایا۔ اس کا پیٹنٹ نمبر 10, 130, 701 تھا۔ جنوری میں امریکا میں پہلے کیس کے دریافت ہوتے ہی یہ پیٹنٹ ختم کردیا گیا۔
کورونا وائرس جسے امریکا کے ادارے The Centers for Disease Control and Prevention (CDC) نے 2019-nCoV کا نام دیا ہے، سے بچاؤ کے لیے 18 اکتوبر 2019 میں ہی نیویارک میں کمپیوٹر پر مشق کرلی گئی تھی۔ مذکورہ مشق کا انتظام بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، جان ہوپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکورٹی نے ورلڈ اکنامک فورم کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس مشق جس میں پارلیمنٹ، بزنس لیڈروں اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا، اس امر کی مشق کی گئی کہ کورونا وائرس کے وبا کی صورت میں پھیلنے کی صورت میں اس سے بچاؤ کس طرح سے کیا جائے۔ اس مشق کو Event 201کا نام دیا گیا۔ یہ ایک فل اسکیل ایکسرسائیز تھی جو چین کے وسطی علاقے ووہان میں پہلا کیس رپورٹ ہونے سے چھ ہفتے قبل کی گئی تھی۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی کمپوٹر پر مشق کا اہتمام کرنے والی تنظیمیں وہی تھیں جو اس وائرس کے پیٹنٹ کے مالک ادارے کو فنڈز فراہم کررہی تھیں۔ اور اب یہی ادارے اور تنظیمیں کورونا وائرس کی ویکسین پر کام کررہے ہیں۔ 18 اکتوبر کو ہونے والی مشق کے شرکاء کے ناموں پر غور کریں تو مزید انکشاف ہوتا ہے کہ اس میں دنیا کے بڑے بینکوں، اقوام متحدہ، بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، جانسن اینڈ جانسن، لاجسٹیکل پاور ہاؤسز، میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ چین اور امریکی ادارے CDC کے نمائندے بھی شریک تھے۔ مشق میں باقاعدہ ماحول بنایا گیا کہ میڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے تباہی کی بریکنگ رپورٹ آرہی ہیں، شہری خوفزدہ ہیں اور حکومت سے اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس انگلینڈ میں بطور ایک حیاتیاتی ہتھیار کے بنایا گیا، اس سے نمٹنے کی مشق نیویارک میں کی گئی تو یہ چین سے کیسے پھیلا۔ اس سے بھی اہم دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر اس کو پھیلانے والے چاہتے کیا ہیں۔ ان سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔