کم عمر بہو کا انتخاب پاکستانی ساس کا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن فن لینڈ کے لوگوں نے کم عمر ترین صدر کے انتخاب پر زیادہ توجہ دی۔ لہٰذا 34 سالہ ’’سنامارین‘‘ کو اپنے ملک کی کم عمر ترین صدر بنا ڈالا۔ 55 لاکھ آبادی کے اس ملک میں ’’سنامارین‘‘ کے انتخاب کے بعد فن لینڈ کی اتحادی حکومت میں شامل پانچوں جماعتوں کی سربراہ خواتین ہی بن گئی ہیں اور یہ ایک منفرد بات ہے کہ خواتین رہنما مل کر حکومتی اتحاد میں شامل ہوں۔ سنامارین کہتی ہیں کہ ’’تمہارا ایک اتحادی حکومتی منصوبہ ہے جو ہمارے اتحاد کو جوڑ کر رکھتا ہے‘‘۔ دیکھا جائے تو اس چھوٹے سے جملے میں ریاست سے لے کر گھر تک حکومت کرنے کا ایک بڑا فارمولا پنہاں ہے۔ ایک زمانے میں فن لینڈ کے ایک چھوٹے سے شہر نے موبائل فون کی دنیا پر حکمرانی کی تھی۔ یہ چھوٹا سا شہر ’’نوکیا‘‘ تھا۔ جو چند بلاک پر مشتمل فلیٹوں اور دکانوں کی ایک چھوٹی سی پٹی پر مشتمل تھا۔ 2000ء کے عشرے میں دنیا کے 40 فی صد موبائل فون نوکیا نے مہیا کیے تھے۔ فن لینڈ نے عالمی سطح پر دنیا کو جانا مانا برانڈ دیا تھا۔ جس نے فن لینڈ کی معیشت پر کرشماتی اثر ڈالا تھا۔ لیکن جس تیزی سے یہ نام اُبھرا تھا اُسی تیزی سے یہ نام نیچے بھی آیا۔ فون کے بازار میں جلد ہی اسمارٹ فون متعارف ہونے کے بعد صورت حال بدل گئی۔
2014ء میں نوکیا کا کاروبار مائیکرو سافٹ نے خریدا تو ڈیوائس پر سے نوکیا کا نام ہی یکسر مٹا ڈالا۔ دنیا میں معاملات کچھ یوں ہی چلتے ہیں۔ کبھی ہیں اور کبھی یکسر غائب۔ فن لینڈ کی وزیراعظم کے خاندان نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے خاندان کی کوئی لڑکی ملک کی وزیراعظم بن جائے گی۔ وہ اپنے خاندان سے یونیورسٹی تک پہنچنے والی پہلی لڑکی تھیں۔ اس وقت فن لینڈ میں وزیراعظم کے علاوہ بھی حکومتی وزرا میں ایک درجن خواتین ہیں۔ خاص طور سے 19 رکنی کابینہ میں 12 وزرا خواتین ہیں۔ یوں اگر کہا جائے کہ فن لینڈ میں خواتین کا راج قائم ہوگیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ جمہوریت کی ماں کہلانے والی برطانیہ کی پارلیمنٹ پر بھی فن لینڈ کا اثر ہوگیا ہے جہاں 2019ء کے عام انتخابات میں ریکارڈ نمبر میں خواتین پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ یہ تعداد 220 ہے جب کہ 2017ء میں یہ تعداد 208 تھی۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں ابھی بھی خواتین اور مردوں کی تعداد میں برابری نہیں ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں خواتین رکن کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد دیا گیا۔ اس وقت عمر کی حد 30 سال مقرر کی گئی، یعنی صرف 30 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو ووٹ کی اجازت دی گئی تھی۔ خواتین کو زیادہ بولنے والا سمجھا جاتا ہے لیکن خواتین کو حکمرانی کے لیے منتخب کرنے والے فن لینڈ میں خاموشی کو تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کے لوگ ایک دوسرے سے حال چال پوچھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ’’گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے‘‘ اور وہ یہ سونا جمع کرنا پسند کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں فن لینڈ کی بات نہ کرنے والی عادت مشہور ہے، لہٰذا فن لینڈ کو خاموش ملک کہا جاتا ہے۔ یہ خاموش ملک آبادی کے سکڑنے کے مسئلے سے بھی دوچار ہے اور برسوں سے اس کے حل کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے لیے اپنے شہریوں کو مختلف قسم کے بونس دینے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ایک اہم اعلان ایک یورو کے بدلے کچھ علاقوں میں زمین کے ٹکڑے دینے اور رقم فراہم کرنے کا بھی کیا گیا تھا۔ ایک قصبہ جہاں آبادی صرف 2901 تھی اس اعلان کے بعد گزشتہ 10 برسوں میں صرف درجن بھر لوگ تھے جنہوں نے اس پیشکش سے فائدہ اُٹھایا۔ آبادی کے اس حد تک سکڑنے کے باوجود فن لینڈ پناہ گزین مہاجروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے آمادہ نہیں۔ وہاں ہونے والے متعدد مظاہروں میں ایسے پلے کارڈ دیکھے گئے جن میں ’’مہاجرین خوش آمدید نہیں‘‘ لکھا ہوا تھا۔ وہاں نوجوانوں کا ایک گروپ اس سلسلے میں باقاعدہ سرگرم ہے۔ حکومت مہاجرین کو روکنے کے لیے دبائو میں ہے، حالاں کہ 2014ء میں ساڑھے 3 ہزار اور 2015ء میں 32 ہزار پناہ گزین پناہ لینے کے لیے فن لینڈ پہنچے تھے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھنا چاہیے۔ لیکن انسانیت دوستی کا سبق مغرب کو مشرق سے سیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک مل جل کر امن و سکون سے رہتے، کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں وہاں لاکھوں کو قتل، معذور اور بے گھر کردیتے ہیں اور جب وہ امن کی تلاش میں پناہ گزین بن کر یورپ کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں انہیں ’’خوش آمدید نہیں‘‘ جیسے پلے کارڈ دکھائے جاتے ہیں اور دوسری طرف مشرق ان جنگوں کے ستائے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ ہنسی خوشی اُٹھاتا ہے۔