کراچی ( رپورٹ \ محمد علی فاروق ) پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پندرہ سال کی کم ترین سطح پر آگئے جبکہ خود کش حملوں کی تعداد میں مزید 44 فیصد کمی آگئی‘ خود کش حملے 2007 ء سے کم کی سطح پر آگئے‘ بم دھماکوں میں جانی نقصان میں اضافہ سلامتی کی صورتحال میں سب زیادہ بہتری سندھ اور بلوچستان میں آئی‘ سال 2019ء کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران 393 افراد ہلاک687 زخمی ہوئے‘ سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصان کا تناسب جنگجوو¿ں کے جانی نقصان سے بڑھ گیا۔
اسلام آباد میں قائم آزاد تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پکس) کی جاری کردہ سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ریاست مخالف جنگجو حملو ں کی تعداد 2004ءسے بھی نچلی سطح پر چلی گئی ہے‘ یہ وہ سال تھا جب فاٹا میں پاکستان کی ریگولر فوج کی تعیناتی کے ردعمل میں جنگجو حملوں کی تعداد میں اضافے کا عمل شروع ہوا تھا۔پکس کے ڈیٹا بیس کے مطابق سال 2019ءمیں ملک بھر میں 159 جنگجو حملے ہوئے‘ جن میں 305 افراد مارے گئے‘ مرنے والوں میں 143 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 129 عام شہری شامل ہیں‘ جبکہ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جنگجوو¿ں کے خلاف 111 کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں 77جنگجو‘ سیکیورٹی فورسز کے سات اہلکار اور چار عام شہری مارے گئے۔مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دورا ن سال 2019ءمیں 277 واقعات میں 393 افراد ہلاک ہوئے جن میں 150سیکیورٹی فورسز کے اہلکار‘ 133 عام شہری اور 110 جنگجو شامل ہیں۔ ان واقعات میں 687 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں 506عام شہری اور 178 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب سیکیورٹی فورسز کا جانی نقصان جنگجوو¿ں کے جانی نقصان سے زیادہ رہا‘ ماضی میں یہ رجحان صرف 2003ء اور 2004 ء میں دیکھنے میں آیا تھا جبکہ 2004 ءمیں فورسز اور جنگجوو¿ں کا جانی نقصان تقریبا ایک جتنا رہا تھا۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 2019 ء میں ماہانہ اوسط حملوں کی تعداد بھی کم ہو کر 13 تک آ گئی ہے۔ یہ اوسط 2018ء میں 19‘ 2017 ءمیں 35‘ 2016 ء میں 43 اور 2014 ء میں 143تھی‘جنگجو حملوں میں کمی کی بنیادی وجہ 2014ء میں شروع کیا گیا آپریشن ضرب عضب‘ 2015 ءمیں اختیار کیا گیا نیشنل ایکشن پلان تھا جبکہ آپریشن رد الفساد نے سلامتی کی صورتحال کو 2003ء کے بعد کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔ 2019 میں جنگجو حملوں کی تعاد میں 31 فیصد‘ ہلاکتوں کی تعداد میں 48 فیصد‘ جبکہ زخمیوں کی تعداد میں بھی 31 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔پکس کی رپورٹ کے مطابق گو کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ جنگجو حملے بلوچستان میں ریکارڈ کیے گئے تاہم سلامتی کی صورتحال میں سب سے زیادہ بہتری کی شرح بھی اسی صوبے میں دیکھنے میں آئی۔ 2018 ئ میں بلوچستان میں 99 جنگجو حملے ریکارڈ کیے گئے تھے جو 2019 میں کم ہو کر 66 رہ گئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس صوبے میں ریاست مخالف حملوں کی تعداد میں 34 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صوبے میں سال بھر میں جنگجو حملوں میں 171 افراد ہلاک اور 427 زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں 89 عام شہری‘ 58 فورسز اہلکار اور 24 جنگجو شامل ہیں جبکہ زخمیوں 354 عام شہری‘ 71 فورسز اہلکار اور دو جنگجو شامل ہیں۔سابقہ فاٹا کے علاقے میں جنگجو حملوں میں 21 فیصد کمی ضرور آئی تاہم شمالی وزیرستان میں جنگجو و¿ں کی سرگرمیوں میں اضافہ سیکیورٹی فورسز کے لیے درد سر بنا رہا‘ خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں سال 2019 ئ میں 52 جنگجو حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 64 افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں 45 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں جو اس علاقے میں ہونے والی مجموعی اموات کا ستر فیصد ہیں۔ 88 زخمیوں کی تعداد میں بھی 57 سیکیورٹی فورسز اہلکار شامل ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اضلاع میں سیکیورٹی فورسز کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔قبائلی اضلاع کے علاوہ باقی صوبہ خیبر پختونخواہ میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جہاں 2019 ئ میں دہشت گردی کے 30واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 46 افراد ہلاک اور 101 زخمی ہو گئے۔ مرنے والے 46 افراد میں سے 26 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ زخمی ہونے والے 101 افراد میں سے 79 عام شہری اور 21 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی اور مجموعی طور پر صورتحال بہتر رہی۔ سال 2018 ءکی طرح 2019 ء میں بھی یہاں جنگجوو¿ں کی پانچ کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں 13 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے۔
پکس کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں ریاست مخالف تشدد میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی جہاں ان حملوں کی تعداد کم ہو کر صرف چار رہ گئی جبکہ 2018 ءمیں اس صوبے میں 15 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے۔ سندھ میں جنگجو حملوں میں جانی نقصان بھی2006 ء کے بعد سے کم ترین سطح پر آ گیا۔علاوہ ازیں 2019 ء میں آزاد کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ایک جنگجو حملہ ریکارڈ کیا گیا جس میں بالترتیب پانچ اور دو سیکیورٹی فورسز اہلکار مارے گئے۔
پکس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں خود کش حملوں کی تعداد بھی 2007 ءسے کم کی سطح پر آگئی ہے۔ یاد رہے کہ لال مسجد آپریشن کے بعد 2007 ءسے ملک میں خود کش حملوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ 2019 ءمیں مجموعی طور پر 10خود کش حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 70 افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں 34 عام شہری‘ سیکیورٹی فورسز کے 19 اہلکار اور 17 جنگجو شامل ہیں۔ خود کش حملوں میں 141 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے 125 عام شہری‘ اور 16 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔
پکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جنگجو دیسی ساختہ بم حملوں میں بہتری لا رہے ہیں‘ 2019میں بم دھماکوں میں ہونے والے جانی نقصان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مجموعی طور پر 85 بم دھماکوں میں 124افراد ہلاک اور 462زخمی ہوئے۔ بم دھماکوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2019ءمیں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 40 فیصد بم دھماکوں سے ہوئیں جبکہ زخمیوں کی مجموعی تعداد کا ستر فیصد بم دھماکوں کے متاثرین پر مشتمل ہے۔