عوام کا اعتماد بحال ہونا چاہیے

333

پرویز مشرف کو عدالت نے سزا سنادی، جس کے تحت انہیں آئین شکنی اور سنگین غداری کے جرم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس جرم میں انہیں سزائے موت کا حق دار قرار دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا جرم ثابت ہوا اور اس وجہ سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ آئین کی شق نمبر 6 کے مطابق جس کسی نے 23 مارچ 1956ء کے آئین کو توڑا ہو یا اُس کے خلاف سازش کی ہو اس کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اُس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔ اگرچہ یہ جرم پہلے کئی دفعہ کیا گیا لیکن سزا پہلی دفعہ پرویز مشرف کو دی گئی۔ یہ بحث الگ ہے کہ اس سے قبل یہ جرم کرنے والوں کو سزا کیوں نہ دی گئی؟ یا اب دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ کیا اس فیصلے کے بعد آئین شکنی کا یہ کام آئندہ کے لیے رُک سکے گا یا دوسرے الفاظ میں کہ کیا اس فیصلے سے آئندہ مارشل لا کا راستہ رُک سکے گا؟ تو اس کا جواب ایک عام آدمی بھی یہ ہی دے گا کہ اس کے بعد یقینا مارشل لا کا راستہ اختیار کرنے والوں کو سوچنا پڑے گا کم از کم ایک دفعہ تو ضرور… البتہ اس پر عمل درآمد کے بعد یقینا جمہوریت ایک عرصہ دراز تک محفوظ ہوسکے گی۔ البتہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا کوئی کھیل کی بات نہیں ہے۔ یہ مقدمہ 5 سال تک چلتا رہا۔ اس دوران میں پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے اور اس کے بعد سے آج تک وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور طبی بنیادوں پر باہر چلے گئے، حالاں کہ بیماری کے باوجود ان کی ڈانس کی ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ عدالت میں انہیں صفائی کے لیے کئی دفعہ بلایا گیا لیکن وہ ایک دفعہ کے بعد عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اس ایک دفعہ میں بھی جج ان کا انتظار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ بار بار انہیں اُٹھ کر اپنے چیمبر میں جانا پڑا کہ ملزم بھی پہنچا نہیں ہے۔ 12 جون 2019ء میں عدالت نے پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کردیا اور اُن کے وکیل سے کہا کہ اب وہ ان کا دفاع نہیں کرسکتے۔ اس سے قبل کم از کم 6 دفعہ انہیں عدالت میں پیش ہو کر اپنی صفائی دینے کے لیے کہا گیا لیکن وہ اپنی بیماری خاص طور سے کمر درد کا ذِکر کرتے رہے اور اس باعث پاکستان آکر عدالت میں اپنا موقف دینے سے کنی کتراتے رہے۔ البتہ یہ کمر درد انہیں مختلف تقریبات میں شرکت کرنے اور لڈی ڈالنے سے نہ روک سکا تھا۔
بہرحال عدالت نے اپنا تاریخی فیصلہ سنادیا ہے۔ یہ ایک بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ اگرچہ سب
جانتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے لیکن بہرحال اس فیصلے اور اس پر عمل درآمد سے فوج کے غلط امیج کا خاتمہ ہوگا۔ عدالت نے ایک مثال قائم کی ہے فوج کے ترجمان نے پرویز مشرف کے لیے بڑا جارحانہ انداز حمایت اختیار کیا۔ یہ اگرچہ مناسب نہیں تھا لیکن شاید فوج کی مجبوری تھا۔ ورنہ سیاست کے میدان میں ان کی حمایت لیے سوائے (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کے کوئی مشکل ہی سے تیار ہوا۔ اداکاروں میں ایک اہم آواز مہوش حیات کی تھی جنہوں نے سابق صدر کی حمایت میں ٹیوٹر پر ویڈیو شیئر کی۔ مہوش حیات اور پرویز مشرف میں ایک اہم مطابقت ناچ گانے سے شغف ہے۔ مہوش حیات سابق صدر کو عزت دینے اور بولنے کا حق فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے اور دیگر سابق صدر کے حمایتیوں نے سانحہ لال مسجد، اکبر بگٹی، ڈاکٹر عافیہ اور اُن دیگر پاکستانیوں کے بولنے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے حق کے لیے زبان کھولی تھی جن کو پرویز مشرف نے ڈالر کے عوض بیچ دیا۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں اور نہ کسی کی طرف سے کوئی الزام لگایا گیا ہے اس کا اعتراف تو خود پرویز مشرف اپنی تحریر میں کرچکے اور دھڑلے سے کرچکے۔ تاریخ میں کبھی سفیروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جو پرویز مشرف نے افغان سفیر ملاضعیف کے ساتھ
کیا۔ ایسا کرکے انہوں نے اپنی عزت نہیں بلکہ پاکستان کی عزت خراب کی۔ ایک فون کال پر پاکستان کو سرزمین کو امریکا کے حوالے کردیا اور پاکستان کی فوج کو کرائے کی فوج بنادیا۔ جو کچھ ان کے اس فیصلے کے بعد ہوا وہ ہرگز ایسا نہیں کہ انہیں معاف کیا جاتا۔ انہوں نے آئین پاکستان کو توڑا جس کی سزا انہیں وہی دی گئی جو آئین میں تحریر ہے۔ باقی جرائم کی سزائیں تو باقی ہیں۔ البتہ جسٹس وقار نے پرویز مشرف کی جو سزا تفصیل کے ساتھ دی ہے وہ اور کچھ نہیں تو یہ بات ضرور یقینی بنائے گی کہ انہیں مرنے کے بعد سرزمین پاکستان پر واپس لانا خاص طور سے عزت و احترام اور گاڈ آف آنر کے ساتھ دفنانا مشکل ہوگا۔ اور یہ آئین عدالت اور پاکستان کی عزت و احترام سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
سابق صدر کا بزدلانہ پالیسیوں کا خمیازہ ساری قوم نے جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں اُٹھایا ہے۔ خود فوج کا نقصان بھی کم نہیں ہوا۔ پھر ان کا عزت و احترام کا معاملہ بھی متاثر ہوا۔ لہٰذا ملک کا ہر طبقہ فکر سابق صدر کا منطقی انجام تک پہنچنا دیکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا حکومت اور فوج دونوں کو بالکل غیر جانب دار رہ کر اور سابق صدر کے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی سے بالکل لاتعلق رہ کر اپنے بہترین مثال قائم کرنا چاہیے۔ یوں آئین اور قانون کی بالادستی اور فوج اور دیگر اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ ساتھ ہی پھر کسی کو آئین کے ساتھ کھیلنے کی جرأت بھی نہیں ہوگی۔