احتساب کے حکومتی نعرے مذاق بن گئے ہیں،سراج الحق

113
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق منصورہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں

لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ احتساب اور کرپشن ختم کرنے کا نعرہ اب مذاق بن گیا ہے ۔ اسلام آباد میں سخت سردی اوردھند سے عوام ،حکومت اور ادارے سب پریشان ہیں۔گیس کی کمی نے چولہے اور حکومت کی کارکردگی نے یوتھ کا جوش ٹھنڈا کردیا ہے ۔جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں سرپرائز دے گی۔ قومی اسمبلی کا10 منٹ کااجلاس قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ پہلے فیصلے کابینہ میں ہوتے تھے اور اب وزیر اعظم صرف مشیروں اور ترجمانوں سے مشاورت کرتے ہیں۔ سینیٹ کا اجلاس کئی ماہ سے نہیں بلایا گیا،ارکان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی اور کی منڈیرپر نہ جابیٹھیں ،حکومت کی ہر محاذ پر ناکامی ثابت ہوچکی ہے ۔وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن ناقابل قبول ہے ،وہ یہ بتائیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپٹ لوگوں کو کوئی پارٹی میں قبول کرکے عہدیدار بناتا ہے۔بھارت کشمیر میں اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے ۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھی بہار اور آسام کی طرح ایسے کیمپ بنارہا ہے جن میں رہنے والے مسلمان نہ بھارت کے شہری ہوںگے اور نہ پاکستان آسکیںگے۔ حکومت نے بڑے بڑے دعوے کرکے اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر سخت مایوس کیا ہے ۔ہر محفل اور مجلس میں لوگ حکومت کی ناکامیوں کا رونا رورہے ہوتے ہیں۔پی ٹی آئی کو ووٹ اور سپورٹ دینے والے اپنے ہاتھ مل رہے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وہی پرانا پاکستان واپس کردیں۔آزادی کے بعد پاکستان انگریز کے وفاداروں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے ملک کو جی بھر کر لوٹا ،اپنی جاگیریں بنائیں ،کارخانے لگائے اور پھر مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کیا۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے غریب کو غریب تر اور امیرکو امیر تر بنا دیا ہے ۔ایک پاکستان کے دعویداروں نے پاکستان کے ہر شہر کو امیراور غریب کے تعلیمی اداروں اسپتالوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے منصورہ میں جاری مرکزی مجلس شوریٰ کے 3 روزہ اجلاس کے افتتاحی سیشن اور جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آزادی کے بعد بھی عام آدمی کے وہی مسائل ہیں جو آزادی سے پہلے تھے ۔ لاکھوں جانوں کانذرانہ دینے اور اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کرنے والوں کے اسلامی نظام کے نفاذ کے سارے خواب چکنا چور کردیے ہیں۔اگر ملک میں شریعت کا نظام ہوتا تو ملک دولخت نہ ہوتا شریعت کے نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امیر غریب ، طاقتور اور کمزور سب کے لیے ایک قانون ہوتا ہے ۔ شریعت کے نظام میں افراد کی نہیں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور حاکم اور محکوم کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیاجاتا ہے ۔ملک میں اس وقت جنگل اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے ۔ ملک میں ہر جگہ وی وی آئی پیز کا راج ہے اسپتالوں،تھانہ کچہری اور عدالتوں میں وی آئی پیز کو پروٹوکول اور غریب کو دھکے دیے جاتے ہیںحالانکہ غریب بھی وہی ٹیکس دیتا ہے جو ارب پتی دیتے ہیں۔ملک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور بدامنی کا ڈیرہ ہے ۔گزشتہ 15ماہ میں مزید80 لاکھ شہری خط غربت سے نیچے گرگئے ہیں۔34لاکھ برسر روز گار اپنے روزگار سے محروم ہوئے ،قرضوں میں مجموعی طور پر 35فیصد اضافہ ہوا۔ مہنگائی اور بے روز گاری کے ستائے ہوئے عوام سخت پریشان ہیں ۔دنیا میں ترقی و خوشحالی اور عروج صرف ان قوموں نے حاصل کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاں قانون کی حاکمیت کو یقینی بنایا ۔انہوں نے کہا کہ ہم بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لیے شریعت کے نظام کی بات کرتے ہیں تاکہ پسے ہوئے طبقے کو انصاف مل سکے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کو موجودہ گمبھیر صورتحال سے صرف جماعت اسلامی نکال سکتی ہے ۔اب قوم کے پاس جماعت اسلامی کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں رہا ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمرانوں کی نااہلی اور استعماری قوتوں کی غلامی کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان تنہا ہیں۔بھارت میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے ۔ہندو راج اور ہندوتوا کے خلاف مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں سراپا احتجاج ہیں لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بدترین کرفیو اور فوجی محاصرے کو 145 دن گزر گئے ہیں مگرکشمیریوں کی چیخ و پکار کاحکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔حکمرانوں کے بیانات اور پالیسیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کشمیر کے صرف اسی حصے کی حفاظت چاہتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حکمرانوں نے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔
سراج الحق