پرویز مشرف کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد پورے ملک میں ایک شور برپا ہے اور فیصلے کے کمزور حصے کو ہدف تنقید بنا کر پورے فیصلے ہی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ فیصلہ لکھنے والے جج کی ذہنی حالت پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ اسے اس کے منصب سے معزول کرنے کی بات کررہے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مذکورہ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے اور کونسل کے ذریعے اسے نااہل قرار دلوایاجائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ساری باتیں حکومت کے ذمے داروں کی طرف سے کی جارہی ہیں جب کہ حکومت ہی جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف کیس کی محرک ہے۔ اس کے ایما پر کیس کی سماعت کے لیے خصوصی احتساب عدالت قائم کی گئی تھی جس میں ہائی کورٹس کے ججوں کا تقرر کیا گیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ کیس نواز شریف حکومت میں دائر کیا گیا تھا لیکن پھر اسی حکومت نے اپنے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دبائو میں آکر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دی۔ میاں نواز شریف کو بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ یہ بہت بھاری پتھر ہے جو ان سے اُٹھائے نہ اُٹھے گا۔ چناں چہ انہوں نے پرویز مشرف کے معاملے میں خاموشی ختیار کرلی۔ البتہ احتساب عدالت کی کارروائی جاری رہی۔ یہ مقدمہ کم و بیش ساڑھے پانچ سال چلا۔ چار سال پچھلی حکومت کے دور میں اور ڈیڑھ سال موجودہ عمرانی حکومت کے دور میں۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے اس بات کے حق میں تھے کہ جس شخص نے آئین کو توڑا ہے، اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا ہے اور دیگر غیر قانونی اقدامات کیے ہیں اسے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت عبرتناک سزا ملنی چاہیے لیکن اقتدار کی مصلحتوں کے تحت جہاں انہوں نے بہت سے یوٹرن لیے ہیں یہاں تک کہ ان کا نام ہی یوٹرن خان پڑ گیا ہے۔ وہیں وہ پرویز مشرف کے کیس میں بھی اُلٹے پائوں پھر گئے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ جنرل پرویز مشرف کو سزا دینے کے خلاف ہے۔ عدالتی فیصلے کے خلاف فوجی ترجمان نے جس غم و غصے کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی قیادت کسی صورت بھی اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دے گی، جب کہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف بے شک فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں لیکن اب وہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے، عدالتیں سیاسی لیڈروں کے خلاف فیصلے دیتی رہتی ہیں، ان فیصلوں کا فوج سے کیا تعلق؟
بہرکیف پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے نے پورے ملک میں تھر تھلّی مچادی ہے۔ بظاہر اسے آئین شکنی، ملک میں ایمرجنسی پلس لگانے اور آئین سے ماورا دیگر اقدامات پر پانچ بار سزائے موت سنائی گئی ہے لیکن جرائم کی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی مجرم کو بظاہر کسی ایک جرم میں عبرتناک سزا سنادی جاتی ہے جب کہ اس کے دیگر بڑے بڑے جرائم کو چھیڑا بھی نہیں جاتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قدرت اس کے بڑے بڑے جرائم کو نظر انداز کردیتی ہے اور فیصلہ کرنے والے جج کا دھیان ان کی طرف نہیں جاتا۔ اصل میں وہ جو سزا دیتا ہے وہ اتنی کافی ہوتی ہے کہ اس میں اَن کہے جرائم کی سزا بھی سمٹ آتی ہے۔ یہی معاملہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کا بھی ہے۔ ہمارے نزدیک پرویز مشرف کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے نائن الیون کے بعد امریکا کی ایک ٹیلیفون کال پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے پورا پاکستان امریکا کے قدموں میں ڈھیر کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پرویز مشرف کی جگہ کوئی سول حکمران ہوتا تو اس کے لیے بھی امریکا کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ تھی لیکن اس بات کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو امریکا کی چراگاہ بنادیا گیا اور اسے افغانستان پر حملے کے لیے تمام زمینی اور فضائی سہولتیں مفت فراہم کردی گئیں۔ حالاں کہ اس کے عوض اربوں ڈالر معاوضہ وصول کیا جاسکتا تھا اور پاکستان کو انفرااسٹرکچر کی تباہی اور دیگر مد میں جو ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوا وہ اس سے محفوظ رہتا۔ امریکا نے پاک فوج کی ایک ارب بیس کروڑ سالانہ کی جو امداد دی اس کے ذریعے پاک فوج کو کرائے کا فوجی بنا دیا گیا جو اپنی سرحدوں کے اندر امریکا کی جنگ لڑتی رہی اور اس کے نتیجے میں پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ہم ابھی تک اس آسیب سے پیچھا نہیں چھڑاسکے۔ اس صورتِ حال کی تمام تر ذمے داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے جس نے پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا تھا اگر ملک میں کوئی بااختیار پارلیمنٹ ہوتی تو وہ پرویز مشرف کا مواخذہ کرتی اور موجودہ عدالتی فیصلے کی نوبت ہی نہ آتی۔
لال مسجد آپریشن اور طالبات کے مدرسہ جامعتہ الحفصہ کی تباہی اور معصوم طالبات کو فاسفورس بموں کے ذریعے ہلاک کرنا اور گھنائونے مقاصد کے لیے ان کا اغوا بھی پرویز مشرف کا نہایت سنگین جرم تھا جو اس نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے لیے یہ کہانی گھڑی گئی کہ مسجد دہشت گردوں کا گڑھ بنی ہوئی تھی اور دہشت گردوں نے وہاں اسلحہ جمع کر رکھا تھا، جب کہ اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، البتہ مسجد میں افغان طالبان کی حمایت اور امریکا کی مخالفت میں تقریریں ضرور ہوتی تھیں اور آئے دن وہاں امریکا کے خلاف جلسے ہوا کرتے تھے جس سے امریکا کو پریشانی لاحق تھی اور صدر بش کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے۔ چناں چہ جب فوجی آپریشن ہوا تو صدر بش نے سب سے پہلے جنرل پرویز کو مبارک باد دی۔ اس واقعے کے ردعمل میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا اور بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ کیا پرویز مشرف کا یہ جرم اس قابل نہ تھا کہ انہیں سزائے موت دی جاتی؟۔ ایک محب وطن بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کا قتل بھی پرویز مشرف کے سنگین جرائم میں شامل ہے جس کے نتیجے میں عسکریت پھیلی اور بھارت کو بلوچستان میں اپنے دندانِ آز تیز کرنے کا موقع ملا۔ قوم کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنا کیا کوئی چھوٹا موٹا جرم تھا جسے نظر انداز کردیا جاتا؟ اِن بڑے بڑے جرائم کے علاوہ پرویز مشرف کے کھاتے میں بے شمار ایسے جرائم ہیں جن میں انہیں سزائے موت ملنا چاہیے تھی لیکن لیکن اِن سب جرائم کو نظر انداز کرکے پرویز مشرف کو محض آئین شکنی پر سزائے موت دنیا درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ فاضل جج ان تمام جرائم سے آگاہ تھے اور وہ مجرم کو ایسی سزا دینا چاہتے تھے جو ان تمام جرائم کا احاطہ کرے، وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تو ماہرین قانون ہی کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جنرل خواہ ریٹائر ہوجائے جنرل ہی رہتا ہے اور اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ احتساب عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف جرأت مندانہ فیصلہ دے کر ایک نظیر قائم کردی ہے۔ اب اس فیصلے پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو لیکن یہ برقرار رہے گا۔