خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی

127

 

اسلام آباد/راولپنڈی(نمائندہ جسارت +خبر ایجنسیاں+ مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پرسابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی فوجی سربراہ یا سابق صدر کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہو۔منگل کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذرمحمد اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس
شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سیٹھ وقار نے 4 سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایااور بتایا کہ تفصیلی فیصلہ 48گھنٹے میں جاری کردیا جائے گا۔مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ء کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔ فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے جرائم ثابت ہوئے۔3رکنی بینچ میں سے 2 ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نذر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔قبل ازیں پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست کرتے ہوئے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر عدالت عظمیٰ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے 2ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا حکومت پرویز مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ آپ کومزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، ساڑھے 3سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، 3افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔جسٹس نذر اکبر نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ سے کہا کہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے لیکن پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی پابند ہے، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع 6 مرتبہ ضائع کرچکے، اس لیے عدالت عظمیٰ342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔ خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کا ایک اور موقع دینے کی ان کے وکیل کی استدعا مسترد کی۔اس دوران جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے موقع فراہم کیا، اب وہ وقت گزر چکا ہے، آپ 342 کا بیان چھوڑیں، آپ کو سن لیا، آپ کا شکریہ، اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ عدالت کے سامنے سرنڈرنہ کرے۔اس دوران عدالت نے استغاثہ کی جانب سے مشرف دور کے وزیراعظم شوکت عزیز، چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کی درخواست بھی مسترد کی۔خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے پرویز مشرف کے پاس 30روز کا وقت ہے۔دوسری جانب فوجی ترجمان میجرجنرل آصف غفور باجوہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے، جنرل (ر) پرویز مشرف آرمی چیف، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور صدرِپاکستان رہے ہیں، انہوں نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ترجمان نے کہا کہ پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے، کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے جب کہ پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا بنیادی حق بھی نہیں دیا گیا۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی جب کہ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے، فوج توقع کرتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔
مشرف سزائے موت