کوئی کچھ کہیے آپ جو چاہیں کرڈالیں‘ چیف جسٹس

428
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ فوری و سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرہے ہیں

اسلام آباد(آن لائن+مانیٹر نگ ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں،جو کرنا ہے، بس کرجائیں، نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے،جوسمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں،پی آئی سی واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے،دل والے اسپتال میںجو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ وفاقی دارالحکومت میں قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسپتال حملے والے کیس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اس پر میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں،ڈاکٹرز اور وکیل دونوں ہی معاشرے کے باوقار پیشے ہیں، دونوں پیشوں کیساتھ گرانقدر روایات منسلک ہیں، معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا،ماڈل کورٹس کے ذریعے تیز ترین انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں، کورٹس نے تاثر پیدا کر دیا2روز میں فیصلہ آنا ہے،ماڈل کورٹس میںمقدمات منتقل کرنے کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں،25اضلاع میں مقدمات کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے،سینئر وکیل کے ہائی کورٹ، عدالت عظمیٰ میں بیک وقت کیس لگے ہوئے تھے،ماڈل کورٹس کے طریقہ کار پر آج تک کوئی شکایت نہیں ملی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظام میں رہتے ہوئے انصاف کے عمل کو مختصر کیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ تبدیلی وہی لاتے ہیں جو رسک لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں،معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ریاست میں گواہوں کولانے کی ذمے داری مدعی پر ڈال دی گئی،ہم نے فیصلہ کیا گواہوں کو لاناریاست اورپولیس کی ذمے داری ہوگی،ریاست و پولیس کوگواہوں کو لانے کی ذمے داری دینے سے انقلابی تبدیلی آئی،ایسا سسٹم بنایا ہے17روزکے اندر چاہے نامکمل چالان ہو لیکن پیش ہوجائے۔ان کا کہنا تھا کہ وکلا کے مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کا شیڈولنگ سسٹم بنایا، سینئر وکیل کے ہائی کورٹ،عدالت عظمیٰ میں بیک وقت کیس لگے ہوتے تھے،درخواستیں آنا شروع ہوگئیں کہ ہمارے مقدمات ماڈل کورٹس منتقل کیے جائیں،ماڈل کورٹس نے یہ تاثر پیدا کردیا کہ 2روز میں فیصلہ آنا ہے تو ضمانت کیا لینی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان کیس کی کارروائی پہلے دن سے لکھنا شروع کردیتے ہیں، پہلے دن سے کیس لکھنے سے فیصلہ سنانے میں آسانی ہوتی ہے ،5سال سے میرے بینچ میں کسی کیس کی سماعت ملتوی نہیں ہوئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں 208 دن میں1لاکھ15ہزارٹرائل مکمل کیے گئے،ایسی ٹیم بن گئی ہے ہرمعاملے پرچیف جسٹس کومداخلت کی ضرورت نہیں پڑے ،جہلم جیسے ضلع میں زیرالتواء مقدمات کی شرح صفر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 6ماہ پہلے آج تک ایک بھی شکایت کسی طرف سے نہیں آئی،شکایت نہیں آئی کہ جج صاحب کی موجودگی میں کوئی شہادت ریکارڈ کی گئی ہو،عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان نے کہا کہ ماڈل کورٹس پرچھاپا ماریں گے،بذریعہ وڈیو لنک ماڈل کورٹس کی کارروائی دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ 1994 ء کی کچھ کرمنل مقدمات کی اپیلیں تھیں جو ختم کردی گئیں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو رسک لینے کوتیارہوتے ہیں،جو کرنا ہے بس کر جائیں،نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے، جو سمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں، تضحیک کے باعث بنے ادارے کوآپ نے عزت کے قابل بنادیا،1.6بلین روپے کے جرمانے لگائے،120 بلین کے جرمانے ریاست کو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پولیس کے ساتھ لیویزنے بھی بہت تعاون کیا، اسلام آباد میں بیٹھ کرکوئی بھی بلوچستان کے حالات کااندازہ نہیں کرسکتا،لیویز اہلکاروں سے امید ہے،وہ آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے،ماڈل کورٹس کے ججز کا طریقہ سماعت ہائیکورٹ کی سطح کا ہے،ماڈل کورٹس نے مردہ سسٹم میں جان ڈال دی ہے۔