حالات پہلے جیسے نہیں‘ہمیں اپنے پیشے کی عزت واپس لانا ہوگی،چیف جسٹس

199

ملتان(مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ پہلے عدالت میں بدمزگی نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالات وہ نہیں رہے، ہمیں اپنے پیشے کی عزت واپس لانا ہو گی،فیصلے نہ کرنے والے ججوں خی معاشرے میں کوئی قدر نہیں،اچھا وکیل بننے کے لیے تاریخ، ریاض اور ادب پر عبور ضروری ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں تقریب سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ 1981 ء میں ملتان بینچ میں بطور وکیل پیش ہوا، ملتان بینچ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، ملتان کے وکلا اور ججز سے بہت کچھ سیکھا، اس وقت ماحول ایسا تھا کہ عدالت میں بدمزگی نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالات وہ نہیں رہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں کیسز کم تھے، جج تسلی سے کیس سن لیتے تھے لیکن اب کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور ججوں کی تعداد کم ہے، زیادہ کیسز کی وجہ سے شاید جج وکیل صاحبان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے نئے وکلا کو سینئروکیل مل جاتے تھے جو ان کو سکھاتے تھے، نئے وکلا جتنی تعداد میں آرہے ہیں، اتنے سینئروکلا میسر نہیں، اس لیے ہر کیس میں ایک سینئروکیل کے ساتھ 2 جونیئر وکیل ہوتے ہیں، ہر نواجون وکیل کو سینئرکے پاس سیکھنے کی جگہ مل جاتی تھی تاہم اب جونیئرز اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کے استاد ہی جونیئرز ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب وہ آداب، کیس کو کس طرح تیار کرنا ہے وہ روایت نہیں رہی، اب ان حالات کو ٹھیک کیسے کرنا ہے، اس کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، وکالت پیسہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے لیے کی جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ججز کو معاشرے میں عزت ملتی ہی اس لیے ہے کہ وہ فیصلے کرتے ہیں، اگر ججز دلائل سننے کے بعد فیصلے نہ کریں تو ان میں اور قاصد میں کوئی فرق نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کہتے اور سنتے ہیں کہ بار اور بینچ ایک گاڑی کے 2 پہیے ہیں لیکن اس گاڑی کو کھینچنے والے سائل کی بات کوئی نہیں کرتا، سب سے اہم سائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ کا نظام چلتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پنگ پانگ کے پرانے کھلاڑی ہیں، ملتان بار کے ٹیبل ٹینس چیمپئن بھی رہ چکے ہیں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ 20 دسمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں، جن کے بعد جسٹس گلزار احمد نئے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔