اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی خصوصی عدالت کا فیصلہ رکوانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں حکم دیا کہ وفاقی حکومت 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرتے ہوئے شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کرے، عدالت نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا کہ خصوصی عدالت کو تمام فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ کرے۔ تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی، وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے سنگین غداری کیس کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا، دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ تمام ریکارڈ ساتھ لائے ہیں سیکرٹری قانون کو ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا وہ کہاں ہیں اگر وہ عدالت میں موجود نہیں تو انھیں آدھے گھنٹے میں ریکارڈ سمیت
عدالت میں حاضر کیا جائے۔ ایڈیشنل سیکرٹری کا عدالت میں ریکارڈ کی فوٹو کاپی پیش کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ اصل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے، تمام نوٹیفکیشنز جو خصوصی عدالت کی تشکیل کے دوران جاری ہوتے رہے وہ بتائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کا تقرر ہوتا رہا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اکتوبر 1999 کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا گیاآپ اس حوالے سے الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ جس پر ساجد بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو،اخصوصی عدالت کے لیے جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت4اکتوبر 2019 ء کو تشکیل ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اتنے سال کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں آپ آج یہ کیس وفاقی کابینہ کی اجازت سے یہاں لے کر آئے ہیں؟ اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹریبونل کو جا کر بتائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ نہ سنائے جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے کوئی نیا تقرر نہیں کیا، ایک سال سے پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کا تقرر نہیں کیا گیا اس کا تو یہی مطلب ہے کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانا ہی نہیں چاہتے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ایک شخص جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہوا ہے اس کے باوجود ہم نے اس کے فیئر ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں، ایک موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے وزارت قانون کو جھاڑ پلاتے ہوئے انھیں نکما اور نااہل قرار دیا کہ وزارت قانون جو بھی نوٹیفکیشن کرتی ہے اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پرویز مشرف کی طرف سے درخواست نہیں دی جب کوئی ملزم اشتہاری ہو جائے تو اس کی طرف سے کوئی وکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا عدالت نے ملزم پرویز مشرف کے لیے وکیل مقرر کیا جو عمرے پر گئے تو انہیں بھی نہیں سنا گیااگر اشتہاری کو کوئی دوسرا وکیل دیا جا رہا ہے تو مجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی 9 اکتوبر 2018 کو وکالت نامہ داخل کیا، اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے 12 جون 2019 ء کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کا آپشن دیا؟ جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کو جواب دیا کہ جی عدالت نے آپشن دیا مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا پرویز مشرف بیمار اور اس پوزیشن میں نہیں کہ اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرا سکیں۔ یاد رہے کہ نوازشریف حکومت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف پر آئین کو پامال کرنا پر سنگین غداری کیس خصوصی عدالت میں چلایا تھا عدالت نے ٹرائل مکمل کرنے کے بعد 28 نومبر کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی جس کے خلاف حکومت پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے عدالت نے دلائل سننے کے بعد خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
مشرف غداری کیس