پولیو ویکسین مرض بڑھا رہی ہے

709

عالمی ادارہ صحت نے بالآخر ان تمام خدشات اور اعتراضات کی تصدیق کردی ہے جو پاکستان میں پولیو کے قطرے زبردستی پلانے کے مخالفین کرتے رہے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ چار افریقی ممالک نائیجیریا، کانگو، افریقن رپبلک اور انگولامیں پولیو کے ایسے کیس سامنے آئے ہیں جن کا سبب پولیو کے قطرے بنے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی تصدیق کی ہے زیادہ تر بچے عام طور پر پائے گئے وائرس کے بجائے ویکسین میں موجود وائرس سے معذوری کا شکار ہوئے۔اس بارے میں عالمی ادارہ صحت نے اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی کہا ہے کہ مذکورہ چار افریقی ممالک کے علاوہ افریقا کے دیگر 7 ممالک اور ایشیا میں بھی اس قسم کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں ۔ان سب ممالک میں پولیو کے خاتمے کے نام پر پولیو کے قطرے زبردستی پلائے جارہے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ویکسین کے ذریعے پولیو کے مرض کا شکار بننے والے تمام کیسوں کی وجہ پولیو ویکسین میں موجود ٹائپ 2 وائرس تھا جبکہ عام ماحول میں پایا جانے والا ٹائپ 2 وائرس ختم ہوئے برسوں گزر چکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے قائم کیے گئے انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ نے انسداد پولیو پروگرام کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ میں خبردار کیا کہ مغربی افریقا میں ویکسین کے ذریعے پولیو وائرس کا پھیلاؤ زمینی حدود و قیود توڑتے ہوئے بے قابو ہورہا ہے اور انسداد پولیو کے پورے عمل کو بھی چیلنج کررہا ہے۔ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت سمیت تمام ہی اداروں کا پولیو کے قطرے پلانے پر زور ہے جبکہ امریکا ، یورپ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں اس پر پابندی عاید ہے ۔ اب جبکہ عالمی ادارہ صحت نے خود اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ پولیو کے قطرے ہی پولیو کی بیماری بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں تو پاکستانی حکومت کو پولیو مہم پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیو ایسی بیماری نہیں ہے کہ اس سے اموات ہوں ۔اس انفیکشن کے 200 نتائج میں سے ایک معذوری ہے اور اس میں بہت معمولی شرح بچوں کی اموات کی بھی ہے جو تنفس کا نظام سکڑنے کے باعث ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں ڈینگی ، ملیریا ، ٹائیفائیڈ ، ہیپا ٹائٹس کی تینوں اقسام ، گیسٹرو اور سگ گزیدگی سے پورے ملک میں سیکڑوں بچے روزانہ موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ آوارہ کتوں کے علاوہ پولیو سمیت تمام ہی بیماریوں کی وجہ گندگی اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی ہے ۔ اگر حکومت متنازع پولیو ویکیسن مہم کے بجائے پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر اربوں روپے خرچ کرتی تو پاکستان کے شہری ساری ہی بیماریوں سے محفوظ ہوچکے ہوتے ۔ دیر ہوچکی تاہم اب بھی اس پر عمل کرلیا جائے ۔