ناروے کی آگ

590

محبت اور عقیدت۔ جرات سے ہم کنار ہوئی تو ایک لمحے میں ’’عمر‘‘ کرن سے آفتاب بن گیا۔ یہ ربّ العزت کا فیض اور کرم ہے ترکھان کے بیٹے پر ارزاں ہوتا ہے تو زندہ جاوید کردیتا ہے۔ کفر کی بستی میں رہتے جوان کو راہ دکھاتا ہے تو ستاروں کا جھرمٹ بنا دیتا ہے۔ وہ کتاب جس نے کائنات میں نور کے چراغ روشن کررکھے ہیں، ربّ کا مخلوق سے مکالمہ ہے، ناروے میں ایک ملعون نے اس رابطے کو شعلوں کی نذرکرنا چاہا تو عمرکے جوش، دلیری اور حساسیت نے اس حرکت کو یوں ناکام بنادیا کہ اس عمل میں وہ تنہا نہیں رہا پوری امت مسلمہ عقیدت کے چراغ لیے اس کے اطراف جمع ہے۔
اسلام کے باب میں تنگ نظری مغرب کے خون میں ماضی کا ورثہ ہے۔ جمہوریت پسندی، انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے کا رخ مسلمانوں کی جانب ہوتا ہے تو تضحیک وتوہین اور نفرت کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اسلام کی روز افزوں مقبولیت سے نفرت بعض تنظیموں، سیاست دانوں، متعصب دانشوروں جنونیوں اور انتہا پسندوں میں مرگی کے دوروں کی طرح لوٹ لوٹ آتی ہے۔ اس کے حل کے لیے بین المذاہب مکالمے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے مکالموں میں واسطہ ان لوگوں سے پڑتا ہے جو تحمل، رواداری اور باہمی عزت واحترام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی انتہا پسندی کو مذہبی اور ثقافتی سمجھ بوجھ کے پردوں میں چھپا دیتے ہیں لیکن اندروں یہ لوگ بھی ان تنظیموں اور جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں جنہوں نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔ مغرب میں یقینا لوگوں کی ایک بڑی تعداد رواداری اور برداشت پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے مظاہر بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ خاموش اکثریت ہے۔ وہ لعین جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑکاتے ہیں جب ان کے خلاف مسلم دنیا سے ردعمل سامنے آتا ہے تو یہ خاموش اکثریت بھی ان شدت پسندوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
مغرب میں اسلام دشمنی جنونیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ وہاں اینٹی اسلام شرٹس، اینٹی اسلام نعرے اور رویے معمول بنتے جارہے ہیں۔ ہمارے یہاں کے لبرلز، ملحد اور متشکک ان رویوں کو معتدل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان رویوں کو مصنوعی معنویت فراہم کرتے ہیں لیکن پھر مغرب میں کہیں نہ کہیں اسلام دشمنی پر مبنی ایسے واقعات سامنے آجاتے ہیں کہ ان خود ساختہ اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ناروے کا یہ اجتماع ایک اسلام مخالف تنظیم کی طرف سے منعقد کیا گیا جس کا ماٹو ہی Stop Islamization of Norway یعنی ناروے میں اسلام کو پھیلنے سے روکنا ہے۔
اسلام کی آفاقیت ان رکیک حرکتوں کے جواب سے مسلمانوں کو روکتی ہے۔ رسالت مآبؐ کے عدم احترام کے جواب میں مسلمان سیدہ مریم ؑ کی شان میں بال برابر گستاخی کا تصور نہیں کرسکتے۔ سیدنا عیسی ؑ کے باب میں کوئی متنازع کلمہ مسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیتا ہے۔ سیدنا موسیؑ، سیدنا سلیمان ؑ اور سیدنا دائود ؑ کے خلاف بولنا تو درکنار سوچنے کا بھی کوئی مسلمان متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلام سیدنا آدمؑ، سیدنا نوحؑ، سیدنا ہودؑ، سیدنا دائودؑ، سیدنا اسحاقؑ، سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا اسماعیلؑ، سیدنا یعقوبؑ اور دیگر تمام انبیا پر ایمان کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلمان تمام
انبیا سے قرب، محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ تحریف شدہ صحیفوں کی بھی توہین کی جرات نہیں کرسکتے۔ گستاخیوں کے جواب میں پلٹ کروار نہ کرنا، مشتعل نہ ہونا اور برداشت کرنا آسان کام نہیں لیکن ایسا کرنا مسلمانوں کا مذہب ہے۔ ان کی ثقافت ہے، ان کی تعلیم ہے۔ دیکھ لیجیے ناروے میں اس ذلیل حرکت کے جواب میں مسلم دنیا میں کہیں بھی کسی صحیفے کی حرمت پامال کرنے کا کوئی واقعہ پیش آیا اور نہ کسی مذہب کی توہین کی گئی۔ مغرب میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں۔ ناروے میں بھی مسلمان کثیر تعداد میں ہیں ان کا ردعمل دیکھیے۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں ناروے میں مسلمان سڑکوں پر جمع ہوکر اللہ کی آخری کتاب کی تلاوت کررہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مسلمان متشدد، انتہا پسند اور مغرب مہذب۔
ان جرائم کے جواب میں ایسے واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جن میں کسی مسلم ملک میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ یا شعائر کی تحقیر کی گئی ہو یا غیر مسلم کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر مغرب میں ایسے حادثے ہوتے ہیں تو مسلم معاشروں میں بھی اس کی کوئی کمی نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے واقعات کم اور مغرب کے ردعمل کے طور پر کسی مجہول شخص یا ٹولے کے ہاتھوں پیش آتے ہیں۔ منظم اور طے شدہ نہیں ہوتے۔ تقریب منعقد کرکے انجام نہیں دیے جاتے۔ ناروے کے واقعے کی ویڈیو دیکھ لیجیے۔ ایک اعلان کردہ پروگرام ہے جہاں لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اس ریلی کی اجازت دی۔ کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، کوئی اس ملعون کو قرآن جلانے سے نہ روکے، اس کے لیے پولیس بھی موجود تھی۔ جیسے ہی ایک مسلمان روکنے کے لیے آگے بڑھا پولیس حرکت میں آگئی، نہ صرف اسے بلکہ اس کی مدد کے لیے آنے والے دوسرے جوانوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ کسی اسلامی ملک یا معاشرے میں بتا دیجیے ایسا کوئی پروگرام منعقد ہوا ہو۔ منعقد ہونا تو کجا ایسا خیال بھی پایا جاتا ہو۔
مغرب میں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ اس خیال کی بڑی شدت سے اشاعت کی جاتی ہے۔ اسلام کے باب میں یہ مفروضہ ہے۔ وہاں ہمارے گمان سے بھی زیادہ مسلم دشمنی پائی جاتی ہے۔ اس ہفتے ناروے ہی میں نہیں آسٹریلیا میں بھی ایک مسلمان خاتون کو محض اسکارف پہننے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مغرب میں ایسے واقعات عام ہورہے ہیں جہاں ایک عام شخص راہ چلتے مسلمان حتی کہ مسلمان عورت پر حملہ کردیتا ہے۔ اسلامی ممالک میں مختلف مذاہب کے لاکھوں کروڑوں لوگ رہتے ہیں لیکن کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ مسلمان نے کسی غیر مسلم پر حملہ کردیا ہو یا ا ن کی کوئی کتاب جلادی ہو۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ کبھی حجاب کے خلاف مہم، کبھی توہین آمیز خاکے، کبھی اسلامی شعائر کی مذمت، جہاد کو دہشت گردی، اسلامی عقائد کو انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ قرآن جلایا جاتا ہے، مساجد پر حملے کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں فرانس میں ایک مسجد پر قبضہ کرلیا گیا کہ ہمیں فرانس میں مسلمان برداشت نہیں۔
اسلامی ممالک میں حکمران ہندووں کے مندر، سکھوں کے گردوارے اور عیسائیوں کی صلیبیں اور چرچ بناتے نظر آتے ہیں۔ مسلمان ان اقدامات کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن کہیں اس پر مظاہرے نظر نہیں آتے، توڑ پھوڑ کے واقعات نہیں ہوتے کہ ریاست کی سطح پر کیوں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بنائی جارہی ہیں، کیوں ریاست کا پیسہ برباد کیا جارہا ہے، کیوں کفر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس تمام وسعت قلبی کے باوجود مغرب اس تصور سے کنارہ کش ہونے اور پھیلانے سے باز آنے کے لیے تیار نہیں کہ مسلم ممالک میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ لاکھ جتن کر لیجیے مغرب مسلمانوں کے خلاف محاذ آرا ہے۔ محاذ آرا رہے گا۔