الیکشن کمشنر سے خوف کیا ہے

371

وزیر اعظم عمران خان نیازی کی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے اس امر پر شدید تنقید کی ہے کہ حزب اختلاف موجودہ چیف الیکشن کمشنر ہی سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کافیصلہ کرانے پر ہی کیوں مصر ہے ۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے جو حزب اختلاف موجودہ چیف الیکشن کمشنر ہی سے فیصلہ کروانے پر مصر ہے ورنہ ان ہی الیکشن کمشنر پر حزب اختلاف گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی ہے ۔جو باتیں فردوس عاشق اعوان نے کہی ہیں، کچھ ایسی ہی باتیں حزب اختلاف کے رہنما بھی کرتے ہیں کہ جب انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کی مرضی کے تھے تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر پاکستان تحریک انصاف کے نزدیک بہترین آدمی تھے اور اب فارن فنڈنگ کے کیس کی سماعت ہونے جارہی ہے تو پہلے عمران خان نیازی نے کیس کی کھلی سماعت کرنے کے بجائے بند کمرے میں کرنے کی درخواست کی اور اب ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کو سنگل آؤٹ کیا جارہا ہے ۔ پاکستان کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہاں پر مقدمات کی سماعت نہ تو میرٹ پر ہوتی ہے اور نہ فیصلے ۔ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کو بھی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کرنے کا خیال اسی وقت آیا ، جب ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے رہ گئے ہیں ۔ مذکورہ کیس 2014 سے زیر التوا ہے ۔ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ اس کیس یا الیکشن کمیشن کے پاس جو بھی کیس دائر کیے گئے ہیں ، ان کی سماعت کرکے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ بروقت کیوں نہیں دیا جاتا ۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ جب چیف الیکشن کمشنر خود ریٹائر ہونے جارہے ہیں ، تو اتنے اہم کیس کی روزانہ سماعت کرکے اور اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس کا فیصلہ کرنے کا اشارہ دے کر وہ کس کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی بار بار کہہ رہے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس میں جان اس لیے نہیں ہے کہ اس بارے میںتمام نکات کا جواب وہ دے چکے ہیں ۔اب انہوں نے اپنی میڈیا ٹیم کو بھی ہدایت کی ہے کہ اس بارے میں عوام کو براہ راست آگاہ کیا جائے ۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا وزیر اعظم عمران خان نیازی کہہ رہے ہیں تو پھر انہیں کس چیز کا خوف ہے ۔ بہتر ہے کہ اس کیس کا فیصلہ آنے دیا جائے تاکہ ان کی پارٹی پر لٹکتی تلوار ہٹ سکے اور وہ عوام کے سامنے سرخرو ہوسکیں ۔ عمران خان نیازی کی ٹیم کا ایک اور مطالبہ ہے کہ فارن فنڈنگ کے معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی جو درخواستیں ہیں ، ان کی سماعت بھی ساتھ ہی کی جائے اور فیصلہ بھی ایک ساتھ ہی دیا جائے ۔ یہ عجیب منطق ہے کیوں کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف یا حمایت میں جو دلائل ہوں گے ، ان کا دیگر جماعتوں کے خلاف مقدمات سے کیا تعلق ہے ۔ عمران خان نیازی کا یہ مطالبہ کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ صرف میں نے چوری نہیں کی ہے ، دوسرے نے بھی تو چوری کی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں تحفظات کے اظہار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان نیازی کو یہ اندیشہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ان کے خلاف لازمی فیصلہ دیں گے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر زیادہ تشویشناک بات ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ایک مقدمے میں میرٹ اور حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے کسی املا یا ذاتی پسند و ناپسند پر فیصلہ دیں ۔دسمبر میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن عملی طور پر معطل ہوجائے گا کیوں کہ اس کے دو ارکان کی ابھی تک حکومت نے نامزدگی نہیں کی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن محض دو ارکان پر مشتمل رہ جائے گا جبکہ اس کے موثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کم از کم تین ارکان موجود ہوں ۔ اسے تو حکومت کی نااہلی ہی کہا جائے گاکہ وہ الیکشن کمیشن جیسے ادارے کو اب تک مکمل نہیں کرسکی یا کرنا نہیں چاہ رہی ۔ جب اتنے اہم ادارے ذاتی پسند و ناپسند کا شکار ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کی کیا صورتحال ہوگی ۔ نیب کی صورتحال سامنے ہے ۔نیب کی کارکردگی پر عدلیہ مسلسل اپنے ریمارکس کے ذریعے عدم اطمینان کا اظہار کرتی رہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے پر تیار نہیں ہے ۔ یہ عمران خان نیازی تک ہی محدود نہیں ہے ، ان سے قبل نیب کے خالق جنرل پرویز مشرف نے نیب کو مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کیا تھاجبکہ آصف زرداری اور نواز شریف بھی اسے مخالفین کو قابو میں کرنے کے لیے بطور آلہ استعمال کرتے رہے ۔ پہلے محض انتظامیہ اور نیب جیسے تحقیقاتی ادارے مخالفین کو سبق سکھانے اور انہیں کنگز پارٹی میں لانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ۔ اب عدلیہ پر بھی انگشت نمائی کی جانے لگی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے ۔ عمران خان نیازی اور ان کی جانب سے الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر عدم اعتماد کا مطلب ہے کہ ریاست کے اس اہم ستون میں دراڑیں پیدا ہورہی ہیں ۔ ریاست کے اس اہم ترین ستون کو مضبوط رکھنا بھی توریاست ہی ذمہ داری ہے اور مسند اقتدار پر عمران خان نیازی ہی تشریف فرما ہیں ۔ اس طرح عدلیہ یا الیکشن کمیشن کی جانب سے کیے جانے والے ناپسندیدہ فیصلوں کے ذمہ دار وہ خود ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان نیازی اپنے منصب کے تقاضوں کو پہچانیں اور ملک میں بے لاگ اور بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ انہیں اور نہ کسی اور کو عدلیہ کے فیصلوں پر عدم اطمینان ہو۔ فیصلہ کسی کے حق میں آئے یا خلاف ، مگر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ عدلیہ نے جانبداری سے کام لیا ۔