این آر او دینا پڑتا ہے

349

قومی مفاہمتی حکم (National Reconciliation Ordinance) یا این آر او کا مطلب ہے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں، قتل، اقدام قتل اور بلوے کے مجرموں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جب عمران خان کہتے ہیں این آر او نہیں دوں گا تو ان کی مراد ہوتی ہے اپنے سیاسی مخالفین کو نہیں چھوڑوں گا۔
’’این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ یہ فقرہ عمران خان کا غرور تھا۔ ان کی آن اور تکبر تھا۔ یہ دعویٰ وہ ایک ایسے نظام کے اندر رہتے ہوئے کررہے تھے این آر او جس کا خمیر ہے۔ این آر او جس کا ضمیر ہے۔ اس نظام میں این آر او گندھے ہوئے آٹے کی طرح ہوتا ہے۔ چاہے اس سے روٹی بنائیں، پراٹھا بنائیں، بچوں کو بہلانے کے لیے کھلونے بنائیں، کھلا رکھ چھوڑیں یا پھر مناسب وقت پر استعمال کے لیے فریج میں محفوظ کردیں۔ این آر او اس نظام کی ناگزیریت ہے۔ این آر او نہیں دوں گا سے مراد ہے عدم مفاہمت۔ عدم مفاہمت ظالموں سے، لٹیروں سے، چوروں سے، ڈاکو ئوں سے لیکن عملاً یہ نظام ان سب کا محافظ ہے۔ ان کے کرتوتوں کو قانونی شکل دیتا ہے، قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام یکساں بنیادوں پر زندگی کے تمام طبقوں، غریبوں اور امیروں کو انصاف مہیا کرے!! غریبوں کی طرح امیروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے!! ایسا اس نظام کی فطرت نہیں۔ عمران خان کے وہ دعوے جو آج ان کے گلے کا ہار اور شرمندگی کا باعث بنے ہوئے ہیں اہل شعور ان کی حقیقت سے واقف تھے۔ وہ جانتے تھے اس نظام سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں۔ چاہے نہ چا ہے این آر او دینا پڑتا ہے۔
نواز شریف کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی یقینا انسانی مسئلہ ہے جس پر سیاست نہیں ہونی چا ہیے لیکن نواز شریف کو دی جانے والی سہولت نے اس نظام کی کم اصلی کو نمایاں کردیا ہے۔ یہ انسانی مسئلہ ہے تو سہولت نوازشریف ہی کو نہیں ہر بیمار کو حاصل ہونی چاہیے لیکن کیا عملاً ایسا ہے؟۔ پاکستان میں ہزاروں قیدی شک، معمولی جرائم یا حقیر جرمانوں کی عدم ادائیگی کی بناپر جیلوں میں بند ہیں۔ بیماریوں سے سڑ رہے ہیں۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ علاج کے نام پر انہیں ادنیٰ سہولت بھی دستیاب نہیں۔ بیرون ملک تو کجا بیرون جیل بھی علاج میسر نہیں۔ کسی غریب قیدی کی ایک دن کے نوٹس پر ہائی کورٹ سماعت کرسکے اور بیرون ملک علاج کا پروانہ بھی دے سکے، کیا ایسا ممکن ہے۔ یہ نظام عوام اور کمزوروں کی حکومت کے دعوے کرتا ہے لیکن عملاً این آر او کمزور کو پیس کر رکھ دیتے ہیں جب کہ طاقتور کے سامنے یہ جھکتے اور ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔
موجودہ نظام میں درحقیقت اختیار عوام کے نہیں اشرافیہ کے سپرد کیا جاتا ہے۔ عوام کو چند حقوق کا فریب دے کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ عوام کی حکمرانی کا نظام ہے۔ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی قانون سازی بظاہر عوامی نمائندے کرتے نظر آتے ہیں لیکن فائدہ حکمران اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ 17ویں ترمیم ہو یا اکیسویں، این آر او ہو یا صدر، گورنرز اور وزیراعظم کو حاصل استثنا، اراکین اسمبلی کا استحقاق ہو یا اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے احتساب کا پیچیدہ طریقہ کار یا پھر قوانین میں ردوبدل اور ترامیم، ہوائوں کا رخ حکمران اشرافیہ کی سمت ہی ہوتا ہے۔ سود، عوام پر کمر توڑ ٹیکسوں کا نفاذ، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں من مانے اضافے، ملکی سا لمیت سے کھلواڑ پر مبنی خفیہ معاہدے اور کمپرومائز، ڈالروں کے عوض ملک وقوم کو امریکا کی جنگوں میں جھونک کر برباد کردینا اس نظام میں یہ سب قانون کے مطابق ہے۔ جرم نہیں۔
عمران خان نے سیاست کا آغاز کیا تو وہ بڑی انقلابی اور اصولی باتیں کرتے تھے۔ بیش تر معاملات میں وہ واضح موقف رکھتے تھے۔ چور کو چور اور کرپٹ کو کرپٹ کہتے تھے۔ امریکا پر، دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت پر، ناٹو سپلائی پر، ڈرون حملوں پر، فوج کے کردار پر اور فوجی آپریشنوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ تاہم اصولی موقف اور عوام میں پسندیدگی کے باوجود وہ اقتدار سے دور اور بہت دور تھے۔ پھر اس نظام کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے اشرافیہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، بہت سے معاملات میں خاموشی اختیار کی، کرپٹ افراد سے کمپرومائز کیا، انہیں پارٹی میں کلیدی عہدے دیے، پارٹی کے ابتدائی اور بانی اراکین کو نظر انداز کرکے الیکٹبلز کی سیاست شروع کی، یوٹرن پر یوٹرن اور این آر او لینا اور این آراو دینا شروع کیا، ان پر اقتدار کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
عمران خان کے برعکس نواز شریف نے کبھی انقلابی سوچ اور خیالات کا بہروپ نہیں بھرا۔ وہ فوجی اشرافیہ کے سہولت کار کے طور پر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے جنہیں ایک اینٹی بھٹو چہرے کی ضرورت تھی جس کے لیے نواز شریف نے بڑے جوش وجذبے سے خود کو پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کا نام سن کر ان کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا وہ پیپلز پارٹی کو سمندر برد کردیتے۔ طویل عرصے اقتدار میں رہنے اور ڈلیورکرنے باوجود وہ جب بھی اصل حکمرانوں کے خلاف گئے ان سے این آر او واپس لے لیا گیا۔ دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کردیے گئے۔ مقتدر اشرافیہ کے خلاف مجھے کیوں نکالا مہم شروع کی تو انہیں زن بچہ سمیت کولھو میں پلوادیا گیا۔ چودھری نثار اور شہباز شریف ابتدا سے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے سے منع کرتے رہے لیکن وہ نہ مانے۔ پھر بالآخر یہ شہباز شریف کی اشرافیہ سے بیک چینل صلح جوئی کا نتیجہ تھا کہ عمران حکومت کی تمام تر مخالفتوں اور روڑے اٹکانے کے باوجود نوازشریف آزاد ہیں۔ عمران خان کو انہیں این آر او دینا پڑا۔
یہ نظام اپنے مہروں سے مکمل سپردگی اور نفی ٔ ذات کا تقاضا کرتا ہے۔ اپنے خیالات، افکار، وعدے سب کچھ ترک کرکے اس نظام میں فنا ہوجانا۔ عمران خان کہتے تھے خودکشی کرلوں گا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا لیکن جانا پڑا۔ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ امریکا، چین، سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے پاس بھی۔ عمران خان کہتے تھے کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ نواز شریف کو دینا پڑا۔ آج کل مولانا فضل الرحمن اشرافیہ کے نمائندہ طاقتور حلقوں سے رابطے میں ہیں۔ وہی قوتیں مولانا کو بھی این آر او دے رہی ہیں جنہوں نے اس سے پہلے عمران خان کو این آر او دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کو اقتدار سونپ دیا گیا تو کیا مولانا اپنے ایجنڈے پر عمل کر سکیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اپنے ایجنڈے پر تو کجا مولانا اس طاقتور اشرافیہ کے ایجنڈے پر عمل کریں گے تب بھی وہ زیادہ عرصے اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے۔ اس نظام میں دینی جماعتوں کے لیے این آر او کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے لیے دوسرا طریقہ عمل ہے۔ مصر کے صدر مرسی کو اس نظام نے ایک سال سے اوپر ہی برداشت کیا اور پھر جیل میں ڈال دیا۔ تادم مرگ۔ سرمایہ دارانہ نظام چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور قاتلوں کو این آر او دے سکتا ہے۔ ان سے مفاہمت کرسکتا ہے لیکن کسی جماعت یا شخص کی اسلامی شناخت اور ایجنڈے کو برداشت کرے، اسے این آراو دے!! ناممکن۔