ناروے میں ایک جنونی شخص کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی پر ایک مسلمان کے احتجاج اور اس کی گرفتاری پر پاکستانی حکومت نے ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ توہین آمیز واقعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر اس طرح کے اقدامات کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ ناروے کی حکومت ذمے داروں کو کٹہرے میں لائے۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ اسلامو فوبیا عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔ بے حرمتی روکنے والے نوجوان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے تو اس حوالے سے زبردست احتجاج کیا اور ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن عالمی سطح پر حکومتوں کے ردعمل کو دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت کے ردعمل پر یقیناً ناروے کی حکومت اور دنیا بھر کے اسلامو فوبیا کے مریضوں کو پیغام ملا ہوگا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان خاموش نہیں رہیں گے۔ اس واقعے پر عالم اسلام کے ہیرو عمر دابہ نے رہائی کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مجھے ناروے میں آزادیٔ اظہار رائے پسند ہے لیکن اس کی کوئی حد ہونا چاہیے۔ اپنے موقف پر قائم ہوں ایسے کسی اقدام کو اسی طرح روکا جائے گا۔ اس معاملے میں معافی مانگنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ہم اشتعال پسند نہیں لیکن دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا اہم ہے۔ عمر دابہ کے اقدام اور پاکستانی حکومت کے ردعمل پر ایک تضاد سامنے آیا ہے۔ ناروے کا شہری قرآن پاک کو جلا کر اس کی بے حرمتی کر رہا تھا لیکن پاکستانی حکمران بلا تخصیص سویلین اور فوجی۔ اپنے عمل سے قرآن کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ قرآن سود سے منع کرتا ہے ہمارے حکمران سودی نظام کے دیوانے ہیں۔ قرآن شراب کو حرام قرار دیتا ہے۔ ہمارے حکمران اس کے لائسنس دیتے ہیں۔ قرآن یہود و نصاریٰ سے دوستی سے منع کرتا ہے۔ ہمارے حکمران مسلسل ان کے دام میں ہیں۔ یعنی قرآن جو احکام دیتا ہے ان کے بر خلاف ہی سارے کام ہو رہے ہیں۔ موجودہ ہوں یا سابقہ بیشتر حکمرانوں کا یہی انداز رہا ہے کہ اسلام کو براہ راست کچھ نہ کہہ سکیں تو اسلامی سیاست، مولوی، مدرسوں وغیرہ کی آڑ میں اسلام کا مذاق بنایا جاتا رہا ہے۔ موجودہ کابینہ تو اس حوالے سے یدطولیٰ رکھتی ہے۔ وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تو حدود عبور کر چکے۔ بیشتر پاکستانی حکمران خود اسلامو فوبیا میں مبتلا ہیں۔ ان کے طرز عمل کو دیکھ کر مغرب یا دنیا کا کوئی بھی ایسا فرد جو اسلامو فوبیا کا مریض ہو اس کی ہمت افزائی ہی ہوگی۔ ناروے کے سفیر نے سفارتی آداب کے مطابق پاکستانی احتجاج سن بھی لیا ہوگا لیکن اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان سمیت دنیا کے کسی اسلامی ملک میں قرآن عملی طور پر حکمرانی کی کتاب نہیں ہے۔ لے دے کر سعودی عرب میں ایک عرصے تک قوانین نافذ رہے لیکن اب وہ بھی روشن خیالی اور سیکولرزم کے راستے پر چل نکلا ہے۔ جب اسلامی ممالک ہی میں اس کتاب کو نافذ نہ کیا جائے اس کتاب اور اس میں درج شعائر کا ان ممالک کے وزراء مذاق اڑائیں تو کون غیر مسلم ہوگا جو ان کی ہیبت میں مبتلا ہوگا۔ جس طرح دفتر خارجہ نے عمر دایہ کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اسی طرح پاکستانی حکمرانوں کے طرز عمل سے 22 کروڑ پاکستانیوں کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں۔ لیکن ان حکمرانوں کو مراسلہ کس طرح تھمایا جائے۔ ایک ووت کی پرچی تھی وہ بھی اس بری طرح شکنجے میں ہے کہ غیر موثر ہی ہو کر رہ گئی ہے۔ پاکستان میں داڑھی والے کے ہاتھوں قتل کو جنونی اسلام پسند کے ہاتھوں قتل کہا جاتا ہے۔ کلین شیو اور جینز پہنے ہوئے ڈاکو کو نامعلوم کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب سندھ یا زبان کی بنیاد پر شناخت ظاہر کرنے پر اخبارات کو دھمکایا جاتا ہے۔ مصطفیٰ کھر کا بیٹا اپنی بیوی پر تیزاب پھینکے تو کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی جاہل شخص ایسا کرے تو اسلام کے خلاف مہم چل پڑتی ہے۔ عالمی سطح پر اسلامو فوبیا ختم ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا اسلامو فوبیا بھی ختم ہونا چاہیے۔ اتنے سخت حالات میں بھی اگر کوئی اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرتا ہے تو اسے سلام ہے۔لیکن پاکستان میں داڑھی والا، اسلامی نام والی جماعت یا نفاذ اسلام کا مطالبہ کرنے والی جماعت کو حکمران اور ان کا خریدا ہوا میڈیا مذاق کا نشانہ بناتا ہے۔ اس کام میں یہ لوگ حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ ٹی وی پر ایسے ڈرامے تواتر سے دکھائے جا رہے ہیں جن میں اسلامی معاشرت کے خلاف زندگی دکھائی جاتی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب سے اسلامی اسباق غائب کیے جا رہے ہیں، نتیجے میں اسلاموفوبیا ہی پیدا ہوگا۔