سی پیک پر امریکی اعتراض۔ سوالات تو ہیں!!

449

پاکستان کے ساتھ برسہا برس ریچھ کی طرح دوستی کرنے والے امریکا نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ سی پیک جاری رہا تو پاکستان کو نقصان ہوگا۔ اس منصوبے سے صرف چین کو فائدہ ہو گا۔ امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس وینس نے کہا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کرپشن سے متعلق تحقیقات سے مستثنیٰ ہوگی۔ پاکستان کو چین سے سخت سوالات کرنا ہوں گے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کی یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں پاکستانی قوم لا علم ہے کہ کن شرائط پر کیا رقوم حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ قرضہ ہے یا امداد ہے۔ اور یہ بھی درست کہا گیا کہ پاکستان کو چین سے سخت سوالات کرنے چاہییں۔ لیکن یہ سوالات تب ہی ہوں گے جب پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے سخت سوالات کریں گے۔ یہاں تو عوام بھی دو کیمپوں میں بٹ جاتے ہیں۔ حکومت کی غلطی پر ذرا سی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ آگ بھڑک جاتی ہے اور مباحثے شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کا نابالغ الیکٹرانک میڈیا بندر کے تماشے دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ ایلس وینس نے ایک عجیب بات کی ہے کہ ہم نے بہتر پیشکش کی ہے۔ یعنی سی پیک مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکا کی جانب سے چین کی طرف تحویل قبلہ مسئلہ ہے۔ کیا امریکی اپنا ماضی دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کا رویہ اس سے مختلف تھا جو چین کا پاکستان کے ساتھ ہونے کا خدشہ بیان کیا جارہا ہے۔ اب تک امریکا نے پاکستان کے ساتھ جتنے معاملات کیے ہیں ان میں فائدہ امریکا کا رہا ہے اور نقصان پاکستان کا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کا اعتراض بجا ہے لیکن ان کی اپنی تاریخ زیادہ خراب ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر دو عشروں سے لڑ رہا ہے اور قوم کو خوامخواہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی ہے۔ دہشت گرد پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس جنگ کا سارا نقصان پاکستان نے اٹھایا اور فائدہ امریکا نے۔ پھر بھی پاکستان دہشت گردوں کا پشتیبان اور ڈبل گیم کھیلنے والا قرارپایا۔ اور ٹرمپ بار بار طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان کی منطق عجیب ہے کہ پاکستان طالبان سے لڑے اور مذاکرات ہم کریں۔ بہرحال امریکی حکام نے درست موضوع چھیڑ دیا ہے۔ ان کی پیشکش کیا تھی وہ بھی سامنے آنی چاہیے۔ لیکن سی پیک پر سخت سوالات حکومت سے بھی ہونے چاہییں اور چین سے بھی۔ اگر امریکا اپنی امداد کو پاکستان میں توہین رسالت کے مجرموں اور بے ہودگی کے فروغ کے علمبرداروں کے لیے آسانیوں سے مشروط کر سکتا ہے تو پاکستان بھی سی پیک کو ایغور مسلمانوں اور برما میں اراکان پر مظالم رکوانے میں چین کے کردار سے مشروط کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے ایوانوں میں نظریہ پاکستان کے محافظ بیٹھے ہوں۔ لوٹوں کے ذریعے پاکستان کے نظریے کا تحفظ ممکن نہیں چین سے سخت سوالات کے لیے سخت جان اور جرأت مند قیادت کی ضرورت ہے۔ امریکی اعتراض اپنی جگہ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ سی پیک کے لیے رقم کس طرح اور کن شرائط پر آرہی ہے۔ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں پاکستانی صنعت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ اتنا کام ہوا ہے اور ہوتا ہے کہ پاکستان اسٹیل جیسی چار اسٹیل ملز منافع بخش ادارہ بن جاتیں لیکن تمام خام مال چین سے آرہا ہے۔ حتیٰ کہ مزدور بھی، اگر اس منصوبے کے لیے پاکستانی مزدور اور کارکن بھرتی کیے جاتے تو ایک کروڑ نہ سہی دو چار لاکھ نوکریاں تو مل ہی جاتیں۔ سی پیک کا قرضہ بر وقت نہ اترنے کے حوالے سے چین اور پاکستان نے ردعمل تو دے دیا ہے لیکن سوالات تو اپنی جگہ موجود ہیں۔