اسٹیٹ بینک نے ایک مرتبہ پھر مژدہ سنایاہے کہ ملک میںمستقبل قریب میں مہنگائی میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوگا ۔ یہ اضافہ کتنا ہوگا ،اس کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے بقول یہ اضافہ توقعات سے زیادہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ مہینوں میں ہونے والی مہنگائی کی شرح گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دے گی ۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ اشیائے خور د نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ جب سے عمران خان نیازی نے اقتدار سنبھالا ہے ، اس دن سے ملک میں اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا اصل ذمہ دار اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہی ہے ۔ اسٹیٹ بینک نے تحریک انصاف کے برسراقتدار آتے ہی انتہائی تیزی کے ساتھ روپے کی بے قدری شروع کی جس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح آن کی آن میں 106 روپے فی ڈالر کے مقابلے میں 160 روپے پر جا پہنچی ۔ صرف اسی ایک وجہ سے ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوا ۔ پیٹرول گیس کے بعد فرنیس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر بھی متاثر ہوئے۔ بجلی ، جراثیم کش ادویات اور کھاد مہنگی ہونے نتیجے میں ملک میں پیدا ہونے والی اشیائے خور ونوش کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ گئیں ۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوںمیں اسی اضافے کو اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کی اصل وجہ قرار دیا ہے جو اسٹیٹ بینک ہی کی مہربانی سے ہوا ۔عمران خان نیازی کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک اور بڑی تباہی یہ آئی کہ ملک کے صنعتی یونٹ ایک ایک کرکے بند ہونا شروع ہوگئے اور بیروزگاری نے ہر طبقے کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں اضافہ شروع کردیا اور اسے 7 فیصد سے بڑھا کر 13.5 فیصد پر لے آیا ۔ اتنی بھاری شرح سود پر کسی بھی صنعتی یونٹ کے لیے بینک سے قرض کا حصول ناممکن ہوگیا ۔ اب بینک صرف اور صرف حکومت پاکستان کو بھاری شرح پر قرض دے رہے ہیں اور ملک کی معاشی ترقی میں ان کاکردار صفر سے گر کر منفی ہو گیا ہے ۔ یہ اسٹیٹ بینک کی دو دھاری تلوار ہے جس نے پاکستانیوں پر قیامت ڈھا کر رکھ دی ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں یہ سب کارگزاری دکھانے والی ٹیم آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی ہے جس کا کام ہی یہی ہے کہ وہ عالمی بینکاروں کی خواہش پر کسی بھی ملک کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر جو کچھ پاکستان میں کررہے ہیں ، وہ یہی سب کچھ مصر میں کرکے آئے تھے جس کا نتیجہ مصر میں وہی نکلا تھا جو اب پاکستان میں نکل رہا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کی معصومیت تو دیکھیں کہ ایک جانب وہ ملک میں مہنگائی کے سونامی کی پیش گوئی کررہا ہے اور دوسری جانب اس نے بلند ترین شرح سود کو کم کرنے کے بجائے برقرار رکھا ہے ۔ ٹیکس کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کس طرح سے ملک میں کوئی صنعت پنپ سکتی ہے ۔ اس کے باوجود عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے ۔ اس سے ہر شخص آگاہ ہے کہ پہاڑ پر بیٹھا ہوا چرواہا بھی جب سگریٹ پیتا ہے تو وہ ٹیکس ادا کررہا ہوتا ہے اور ایک شیر خوار بچہ بھی ٹیکس ادا کررہا ہوتا ہے ۔عمران خان اور ان کی ٹیم کی مراد اگر انکم ٹیکس سے ہے تو صورتحا ل یہ ہے کہ عمران خان جو اربوں روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں ، انہوں نے گزشتہ برس میں صرف ایک لاکھ روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا ۔اب وہ بتائیں کہ ٹیکس کون ادا نہیں کررہا ہے ۔