سندھ میں انسان نہیں کتے اہم ہیں

447

پورے سندھ میں قدرتی آفات اس وقت حملہ آور ہیں اور ان قدرتی آفات کے بے قابوہونے کی سو فیصد ذمہ دار صوبائی حکومت ہے ۔ ڈینگی ، ٹائیفائیڈ ، ٹڈی دل کے ساتھ ساتھ آوارہ کتے بھی سندھ کے باسیوںکی جان کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر پورے صوبے میں ڈینگی سے ہزاروں افراد بیمار ہورہے ہیں اور درجنوں افراد جان سے جارہے ہیں ۔ ٹائیفائیڈ کے ساتھ ساتھ اب اس کی ویکسین بھی ہلاکت کا سامان بن گئی ہے ۔ٹڈی دل کی پاکستان آمد ہی پراسرار ہے ۔پاکستان پر حملہ آور ٹڈیاں کوئی پاکستان میں تو پیدا ہوئی نہیں ہیں ، یہ افریقا، مصر اور سعودی عرب سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچی ہیں ۔ دو تین ماہ قبل جب مکہ مکرمہ میں ٹڈی دل حملہ آور ہوا تھا تو اسی وقت حکومت پاکستان کو اس کے خلاف حفاظتی اقدامات کرلینے چاہیے تھے ۔ کم از کم سندھ حکومت کو اس ضمن میں وفاقی حکومت کو متحرک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کہ ٹڈی دل کا راستہ سندھ سے ہی ہو کر گزرتا ہے ۔اگر ایسا بروقت کرلیا جاتا تو سندھ کے کاشت کاروں کو وہ نقصان نہیں پہنچتا جس سے اب وہ دو چار ہیں ۔ سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات کو بھی سندھ حکومت کی نااہلی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ سندھ کے دیہی علاقے تو ایک طرف رہے ، شہری علاقوں کی صورتحال بھی ناگفتہ ہے ۔ صرف کراچی کے دو بڑے اسپتالوں میں آوارہ کتوںکے کاٹنے کے دو سو کے قریب کیس رپورٹ ہورہے ہیں ۔ ان میں سے کئی زخمی روزانہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر سندھ حکومت ہے کہ اس کی اپنی منطق ہے ۔ کہا جارہا ہے سندھ کے ہر اسپتال میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی سہولت فراہم کی جائے گی ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر انہیں بانجھ کیا جارہا ہے اور انہیں ریبیز کے انجیکشن لگائے جارہے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہر گلی کوچے میں آوارہ کتے جو غول در غول گھوم رہے ہیں ، انہیں مارا جائے اور شہریوں کی جان بچانے کی عملی کوشش کی جائے ۔ کیا جو کتے بانجھ بنا دیے جائیں گے اور انہیں ریبیز کے انجیکشن لگادیے جائیں گے ، وہ شہریوں کو نہیں کاٹیں گے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے کتوں کے مارنے کے خلاف فیصلہ دیا ہوا ہے ، اس لیے عدالت کے فیصلے کے احترام میں کتوں کو مارنے سے اجتناب کیا جارہا ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ایک این جی او کے سربراہ کمال صدیقی کی درخواست پر دیا تھا ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے زرداری خاندان کے ولایت پلٹ بچے بھی کتوں کی محبت میں مبتلا ہیں ، اس لیے سندھ میں حکمراں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ اور دیگر کارپردازوں کی کتا مار مہم شروع کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔ اس بارے میں بختاور زرداری کی ٹوئٹ قابل ذکر ہے ۔سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کے نزدیک انسان اہم ہیں یا کتے ۔ اگر سندھ ہائی کورٹ نے کتوں کو نہ مارنے کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے تو اس کے خلاف عدالت میں کوئی اپیل کیوں نہیں کی گئی۔ سندھ میں بلدیہ ہو یا صوبائی حکومت ، حزب اختلاف ہو یا سندھ اسمبلی سے باہر بیٹھی سیاسی و سماجی پارٹیاں ، سب کی تان ایک ہی نکتے پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ جو لوگ بھی آوارہ کتوں کو مارنے کے مخالف ہیں ، شہر بھر سے آوارہ کتے پکڑ کر ان کے دفاتر اور گھروں میں چھوڑ دیے جائیں ۔ اس کے بعد انہیں پتا چل جائے گا کہ انہیں کتوں کی محبت زیادہ تھی یا باہر سے آنے والی فنڈنگ نے ان کی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔ عدالتیں کئی معاملات پر ازخود نوٹس لیتی رہی ہیں ، کتوں کو مارنے کے لیے بھی ہم عدالت عالیہ سندھ اور عدالت عظمیٰ سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کریں گے ۔