بھارت سے تعلقات کی بحالی

269

بھارت کے ساتھ پاکستان کی بیک چینل ڈپلومیسی کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور پاکستان نے خاموشی سے بتدریج بھارت کے ساتھ تعلقات پرانی سطح پر لانے کا عمل شروع کردیا ہے ۔ 5 اگست کو سقوط کشمیر کے بعد پاکستان نے بھارت کے خلاف عملی اقدامات کے بجائے چند نمائشی اقدامات کیے تھے جس میںبھارت کے ساتھ براہ راست تجارت ، ڈاک کا سلسلہ ، سمجھوتہ ایکسپریس اور دوستی بس سروس کومعطل کرنا اور سفارتی تعلقات کو ہائی کمشنر کی سطح سے نیچے لاکر ڈپٹی ہائی کمشنر کی سطح پر لانا تھا ۔ سقوط کشمیر کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ جاری ہے جس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں اور افسران کے ساتھ ساتھ سول آبادی کا بھی جانی و مالی نقصان ہورہاہے ۔ اس کے جواب میں کرتار پور بارڈر پر پاک بھارت لیڈر شپ جھپیاں ڈالتی رہی ۔5 اگست سے مقبوضہ کشمیرمسلسل محاصرے کی حالت میں ہے ۔ وہاںپر مواصلاتی رابطہ منقطع ہے اور کسی کو بھی ریاست سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ، کاروبار بندہے ، چھاپے مارے جارہے ہیں ، ہزاروں نوجوان حراستی مراکز میں قید ہیں ، کشمیری خواتین کی عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے ،مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی ریاست میں ضم کرنے کا عمل بھی مکمل کرلیا گیا ہے ۔ ان سب بھارتی اقدامات کے جواب میں پاکستان کی قیادت نے بھارت کے ساتھ عملی طور پر سہولت کار کا کردار ادا کیا ۔ اب ساری بھارتی جارحیت کو بھلا کر عمران خان نیازی نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے شروع کردیے ہیں ۔ پہلے خاموشی سے تجارتی تعلقات بحال کیے گئے اور اب دونوں ممالک کے درمیان ڈاک کا نظام بھی بحال کردیا گیا ہے ۔ چند دنوں کے بعد ہی دونوں ممالک کے ہائی کمشنر بھی اپنے اپنے فرائض ادا کرنے پہنچ چکے ہوں گے ۔ پھر سقوط بنگال کی طرح سقوط کشمیر بھی بھلا دیا جائے گا ۔ سقوط بنگال کے سارے کردار ایک دوسرے پر اس کا الزام عاید کرتے رہے اور یوں وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہے ۔ سقوط کشمیر میں پوری صورتحال عوام کے سامنے ہے اور اب ان کے علم میں آچکا ہے کہ اس معاملے میں حزب اختلاف ، حزب اقتدار اور ان کے سلیکٹر سب ایک صفحے پر ہیں ۔ سانحہ بنگال میں بھی جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی تھی جس نے سقوط کی عملی مخالفت کی تھی، جس کی سزا جماعت اسلامی بنگلا دیش کے ارکان آج تک پھانسی کے پھندے کو چوم کر ادا کررہے ہیں ۔ سقوط کشمیر کے خلاف بھی جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے جس نے اس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے اور 22 دسمبر کو اس کے خلاف اسلام آباد میں بھرپور احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان سے امید ہے کہ سقوط کشمیر پر چپ سادھنے والے ایک صفحے پر موجود سارے کرداروں کو مجبور کرے گی کہ وہ پاکستانی عوام کے جذبات کا پاس کریں اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارتی استبداد سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کریں ۔