مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے لاک ڈائون کو سو سے زیادہ دن ہوگئے ہیں۔ یہ غیر انسانی طرزِ عمل کشمیر کے لوگ جس طرح برداشت کررہے ہیں۔ وہ خاموشی ہے، اگرچہ بہت زیادہ بے چینی ہے مشکلات ہیں۔ لیکن کشمیر کے لوگوں نے احتجاج کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے سارا کشمیر صبح سات بجے بیدار ہوتا ہے، دکانیں جزوی کھلتی ہیں، لیکن ساڑھے دس گیارہ بجے تک سب بند ہوجاتا ہے۔ کشمیری 370 اور 35 اے کے خاتمے کے خلاف احتجاج میں خاموش ہیں، ایسے خاموش جیسے دھیمی آنچ پر لاوا پکتا ہے بازار بند ہیں، سڑکیں سنسان ہیں، سیب اور دیگر پھلوں کی فصلیں تیار ہیں لیکن لوگ انہیں فروخت نہیں کررہے سکھارہے ہیں، کشمیری دنیا سے بے زبانی کی زبان سے سوال کررہے ہیں۔ لہٰذا وہ گھروں میں قید رہ کر احتجاج کا نیا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں۔ کشمیری پہلی مرتبہ خاموشی کو ایک ہتھیار کے طور پر سول نافرمانی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ گاندھی کے ستیاہ گرہ طرز کا احتجاج ہے۔ کشمیری متحد ہیں، ایک ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں دنیا کو کشمیر کے اس خاموش احتجاج کا نوٹس لینا چاہیے، ورنہ دوسری صورت میں کشمیر میں عسکریت کی خوفناک لہر اُٹھے گی اور اس کے ذمے دار مودی حکومت ہوگی، کیوں کہ انہوں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کیا۔ اس وقت بھارت کی حکومت حیران بھی ہے اور پریشان بھی کہ ہم کشمیریوں پر ظلم کررہے ہیں، ہر طرح کا ظلم لیکن اُس کے جواب میں پُرتشدد احتجاج نہیں ہورہا، بھارتی حکومت کا خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح سڑکوں پر نکلیں گے گولیاں چلیں گی، پانچ دس ہزار لوگ مرجائیں گے اور لوگ کو ڈرا دھمکا کر قابو کرلیا جائے گا۔
بھارتی حکومت ڈنڈے، گولی اور بندوق سے سب کا منہ بند کرنا چاہتی ہے۔ کشمیر میں تو یہ سلسلہ ہے ہی لیکن پورے بھارت میں بھی یہی حال ہے۔ مودی حکومت کی مخالفت میں کوئی نہ بولے، جو بولے اُس کو حراست میں لے لو، غداری کا الزام لگائو، ہر طرح سے ڈرائو دھمکائو، اب تو خود بھارت میں اس کے اپنے شہری یہ کہہ رہے ہیں۔بھارت آہستہ آہستہ عالمی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے طویل کرفیو کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کا قصہ ختم کرنے کے درپے ہے۔ عالمی برادری کی بے حسی اور خاموشی بھارتی عزائم کو تقویت دے رہی ہے۔ کشمیر تو کشمیر ہے بھارت تو اپنے شہریوں کو برابر کے حقوق دینے میں بھی ناکام ہے، مظلوم اور معصوم پسے ہوئے طبقات کو طاقت کے زور پر خاموش کرنا اور ظلم سے دبالینا مستقبل میں بھارت کے لیے بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ بھارت کو روس کے حشر سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھارت میں اس وقت تحریک خالصتان سمیت آزادی کی چودہ تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے کئی نے اپنی علیحدہ ریاستوں کے قیام کا اعلان بھی کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے مطابق کشمیر میں پچھلے برسوں میں آزادی کی تحریک کے دوران کم از کم پچیس ہزار افراد کو پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت قید کیا گیا، اس قانون کے تحت کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی شہری کو گھر یا گھر سے باہر محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرسکتا ہے، گرفتار کیے گئے شہری کے گھر والوں کو اس کی اطلاع نہیں دی جاتی اور نہ ہی اُسے کوئی قانونی امداد حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس قانون کے تحت بچوں کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے، ایسا بھارت کے علاوہ صرف اسرائیل میں ہوا ہے۔ UNO کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس قانون کو ’’لا لیس لا‘‘یعنی غیر قانونی قانون قرار دے کر خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ فی الوقت جو بھی اس قانون کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے اس کے لیے دلیل، وکیل یا اپیل کوئی چیز بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
کشمیر میں پیلٹ گن سے ہزاروں نوجوان اور کمسن بچے بینائی سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں انڈین فورسز کم از کم تین ہزار لوگوں کی آنکھوں کی بینائی کو نقصان پہنچا چکی ہیں۔ عوامی غصے کے باوجود انڈین سیکورٹی فورسز نے چھروں کے استعمال میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے نمائندے کہتے ہیں کہ انڈیا کی مختلف ریاستوں میں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن پیلٹ گن یعنی چھروں والی بندوق صرف کشمیر کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ اس وقت جب کہ بھارت نے آئین کی شق 370 ختم کردی تو حقیقت میں بھارت نے وہ جواز ختم کردیا جس کے تحت اور جس کا حوالہ دے کر وہ کشمیر پر حاکمیت کو درست قرار دیتی تھی۔ اب کشمیر کے سارے رہنما قید میں ہیں، پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے، کشمیری انسانی المیے کا شکار ہیں، مریضوں کو دوائیں مل رہی ہیں نہ اسپتال تک رسائی ہے، اسکول بند ہیں اور کشمیری اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کشمیری جسٹس مسعودی کہتے ہیں کہ ’’بھارتی حکومت نے کشمیر کی خود مختاری کی آخری علامت کو ختم کرکے ریاست کے ساتھ بھارت کے سبھی رشتوں کو ختم کردیا ہے۔ پانچ اگست کو یہ وہ بڑا حملہ ہے جو ہمارے تشخص اور ہماری خود مختاری پر کیا گیا جس نے ہم سے ہماری بنیاد چھین لی ہے۔ کیا آپ کسی معاہدے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس معاہدے کا مرکزی حصہ تو باقی ہے مگر جو شرائط تھیں وہ ختم کردی گئی ہیں۔ حقیقت میں بھارتی حکومت کے اس اقدام نے تمام کشمیریوں کو ایک سائڈ پر کردیا ہے۔ نہ صرف کشمیری بلکہ پوری دنیا کشمیر پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھارہی ہے لیکن اس آواز کو بھرپور اور زور دار ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ کشمیر پر بھارت کے وزیراعظم کے سخت تسلط کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’امریکی حکومت انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرے اور مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیریوں کی خواہش کے مطابق پرامن حل نکالے جانے کی حمایت کرے‘‘۔ امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر نے دیگر چھ اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر کشمیر کے لیے خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان میں انڈین نژاد اراکین کانگریس بھی شامل ہیں۔ امریکا میں ’’ہندو فارہیومن رائٹس‘‘ نامی ایک تنظیم کی رکن ’’سنیتا وشواناتھن‘‘ کہتی ہیں کہ ’’وہ خوش ہیں کہ ہندو اور انڈین نژاد رکن کانگریس نے کشمیریوں کے حالات پر آواز اُٹھائی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں کشمیر کے سلسلے میں معاملات سے محض زبانی کلامی نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نمائشی اظہار یک جہتی پر اکتفا کرتی ہیں۔ بلکہ اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ضروری ہے کہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کچھ عملی اقدامات اُٹھائے۔ کم از کم بقول سید علی گیلانی کے بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدات سے علیحدہ ہوجائے جن کو خود بھارتی حکومت توڑ چکی ہے۔ آزادی فلوٹیلا مارچ نکالا جائے جس میں ہر طبقے اور ہر دائرے کے افراد شامل ہوں۔ یہ دونوں تجاویز اہم ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان پر غور کرنے اور عمل کی طرف توجہ دے۔