اسلام آباد ہائی کورٹ نے نادرا کی جانب سے لوگوں کی شہریت ختم کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کی شہریت ختم کرنا نادرا کا اختیار نہیں ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ ریمارکس بروقت دیے ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ نادرا کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ صرف ریمارکس تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس بارے میں اپنے واضح فیصلے کے ذریعے حکومت اور نادرا کو کوئی گائیڈ لائن بھی دے گی ۔ گزشتہ دس برس سے نادرا نے نیا طریق کار اختیار کیا ہے کہ جن لوگوں کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں اور اب وہ اس کی مدت ختم ہونے کے بعد تجدید کے لیے پہنچتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے ، ان کے کارڈ بلاک کردیے جاتے ہیں یا مزید دستاویزات کی فراہمی کی احمقانہ فرمائشیں کی جاتی ہیں ۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈکی ایک سے زاید مرتبہ تجدید ہو چکی ہے ، ان کو بھی شناختی دستاویزات فراہم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ کئی افراد سے تو ہم خود بھی ذاتی طور پر آگاہ ہیں کہ وہ پاکستان ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور ساری تعلیم بھی پاکستان میں ہی حاصل کی ہے مگر اب ان کے شناختی کارڈ کی تجدید کرنے سے انکار کیا جارہا ہے ۔ ایک کیس میں تو 1986 تک کے شناختی کارڈ موجود ہونے کے باوجود اس سے مزید پہلے کا شناختی کارڈ طلب کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور کیس میں شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے اس کے والدین کے شناختی کارڈ طلب کیے گئے ۔ یہ بتانے کے باوجود کہ والدین کا انتقال ہوچکا ہے اور ان کے ڈیتھ سرٹیفکٹ موجود ہیں ، تمام بہن بھائیوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بھی منسلک ہیں ، مگر شناختی کارڈ کی تجدید سے انکار کیا جارہا ہے ۔ ایسے کیس بھی اخبار میں شائع ہوتے رہے ہیں کہ والدین اور تمام بہن بھائیوں کے شناختی کارڈ جاری کردیے گئے مگر ایک فرد کے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں کی جارہی ہے ۔جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر حمداللہ کا کیس تو نادرا کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ۔ شناختی کارڈ جاری نہ ہونے کی بنا پر شہری کس طرح کے مصائب میں مبتلا ہیں ، اس کا اندازہ نادرا کے افسران کو اسی وقت ہوگا جب ان کی اپنی شناختی دستاویزات ضبط کرلی جائیں ۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی بنا غریب لوگ نہ تو علاج معالجے کے لیے بیت المال سے مدد طلب کرسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی اور سہولت میسر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے پیارے بنا علاج کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب پوری طرح چھان بین اور تصدیق کے بعد کسی کو شناختی کارڈ جاری کردیا گیا ہے اور کئی مرتبہ اس کی تجدید بھی کی جاچکی ہے تو پھر اس کی تجدید میں اب کیا امر مانع ہے ۔ اگر کسی کو غلط شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے تو پھر اس جعلسازی کا سدباب صرف شناختی کارڈ بلاک کرکے نہیں ہوسکتا ۔ ایسی صورت میں نادرا کے عملے کے جس جس فرد نے مذکورہ شناختی کارڈ جاری کرنے میں حصہ لیا، اسے بھی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اسی طرح نادرا کے عملے میں جو لوگ بھی شہریوں کوشناختی دستاویزات جاری کرنے میں غیر ضروری طور پر لیت و لعل سے کام لیتے ہیں ، ان کے خلاف بھی موثر کارروائی کی جانی چاہیے ۔ سب سے زیادہ مسائل اب آن لائن فارم بھرنے پر آرہے ہیں ۔ آن لائن فارم کا نظام خصوصی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آسانی فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا ۔ اکثر تو اس کا لنک ہی ڈاؤن رہتا ہے یا پھر رفتار انتہائی سست ہوتی ہے ۔ کسی مشکل کی صورت میں ہیلپ لائن پر فون کیا جائے تو وہاں پر کوئی فون اٹھانے والا ہی نہیں ہوتا ۔ اگر بہ مشکل کوئی نمائندہ فون اٹھا بھی لے تو اس کے پاس ایک ہی رٹا رٹایا جواب ہوتا ہے کہ آپ کا مسئلہ متعلقہ شعبہ کو بھیجا جارہا ہے ۔ اس کے بعد پھر کبھی کوئی جواب نہیں آتا اور معاملہ جوں کا توں رہتا ہے ۔ ہم نادرا حکام اور حکومت دونوں سے اس معاملے کے حل کرنے کی درخواست کریں گے کہ یہ انتہائی اہم انسانی مسئلہ ہے ۔